کسی سے بھی نفرت نہیں ہے گرو جی
سو ،جینا اذیّت نہیں ہے گرو جی

اِن آنکھوں کی لو میں سفر طے کریں گے
ستارے کی حاجت نہیں ہے گرو جی

زمانے کو دیکھیں ،زمانے کو پرکھیں
ہمیں اتنی فرصت نہیں ہے گرو جی

یہ تم ہو جو دریا پہ یوں چل رہے ہو
ہمیں بس اجازت نہیں ہے گرو جی

ہمارے لئے اس مہزب جہاں میں
کہیں جائے وحشت نہی ہے گرو جی

بیک وقت ،"سننا" بھی اور "دیکھنا" بھی
قسم سے قیامت نہیں ہے گرو جی ؟؟؟؟

سہولت ،محبّت میں ہوتی ہے لیکن
محبّت سہولت نہیں ہے گرو جی

غضب ہے ...!! کہ دنیا بدلنے چلے ہیں
جنہیں خود پہ قدرت نہیں ہے گرو جی

بنامِ محبّت ،فقط میر ہی کیا
کسی کی بھی عزت نہیں ہے گرو جی

علی جی نوازا ہے سائیں نے اتنا
کہ اب کوئی حسرت نہیں ہے گرو جی

علی زریون

Post a Comment