برف کی چادر اوڑھ کے سو جاتا ہے دریا
جانے کن خوابوں میں کھو جاتا ہے دریا

اپنے آپ میں چھپ جاتا ہے بھیس بدل کر
شاید میرے جیسا ہو جاتا ہے دریا

تیرے بدن کی دھوپ میں مہکے ملن کی بیلا
کیسے کیسے سپنے بو جاتا ہے دریا

ٹھٹھرے پل میں پگھلے پل کی روا روی ہے
روک سکو تو روکو، لو جاتا ہے دریا

بچھڑی ہوئی کونجوں کی یاد میں ، گھائل رہ کر
میرے ہجر کے آنسو رو جاتا ہے دریا

دے کے مجھے دلاسے ، اس فرقت کی رُت میں
میرے دل کے زخم بھی دھو جاتا ہے دریا

کتنی پُر اسرار روش ہے آب رواں کی
آتا ہوا لگے ہے ، گو جاتا ہے دریا

اُس کی چال میں ہے مسعود کے حال کی مستی
شاید تجھ سے ملنے کو جاتا ہے دریا

درامن ۔ ۵ جنوری ۔ دریا کو منجمد دیکھ کر)

مسعود منور

Post a Comment