آنکھ بیزار ہے لیکن مرے جی سے کم ہے
رنگ ہر باغ میں خوشبوکی خوشی سے کم ہے

سلسلےاور بھی تھے میرے، ترے ہونے سے
یہ محبت کی کمی تیری کمی سے کم ہے

تو بھی اے دردِ سخی نام کا ہے دردِ سخی
دین تیری بھی مری کم طلبی سے کم ہے

تم کو معلوم ہو کیا تم تو بجھے بیٹھے ہو
رات کو رنج چراغوں کی ہنسی سے کم ہے

تجھے خوش فہمی ہے خوش فہمی جمال خوش چشم
میری حیرت تری آئینہ روی سے کم ہے

برزخِ عشق توازن کا سوالی ہوں میں
موت کا غم مری جینے کی خوشی سے کم ہے

اول اول یہی کہتا ہے ہر اک دیوانہ
دشتِ امکاں مری آشفتہ سری سے کم ہے

سیرِصحرا کونکل آیا تھا اس دھوکے میں
تابِ صرصر مری سانسوں کی نمی سے کم ہے

آج رکنا تھا مضافاتِ بدن میں یوں بھی
آج وحشت بھی تری خوش بدنی سے کم ہے

تجربہ مجھ کو ہے دونوں سے گزرنے کا میاں
زندگی صبر طلب اُس کی گلی سے کم ہے

علی ارمان

1 تبصرے


  1. غزل
    شفیق خلش

    دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ
    جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن جاؤ

    ہو مثالوں میں نہ جو حُسنِ عجب بن جاؤ
    کِس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ

    آ بسو دل کی طرح گھر میں بھی اے خوش اِلحان
    زندگی بھر کو مِری سازِ طرب بن جاؤ

    رشک قسمت پہ مِری سارے زمانے کو رہے
    ہمسفرتم جو لِئے اپنے یہ چھب بن جاؤ

    میں نے چاہا تھا سرِصُبْحِ جوانی بھی یہی
    تم ہی سانسوں کی مہک، دل کی طلب بن جاؤ

    کچھ تو احساس چَھٹے دل سے اندھیروں کا مِرے
    زیستِ تاریک کو اِک شمعِ شب بن جاؤ

    دل میں رکھتا ہُوں محبّت کا خزانہ جاناں
    چھوڑکرسارا جہاں میری ہی اب بن جاؤ

    ذات قربت سے ہمیشہ ہی منوّر چاہوں
    کب کہا اُس سے خلش رونقِ شب بن جاؤ

    شفیق خلش​

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں