دوڑ سی مجھ کو لگاتار لگی رہتی ہے
میرے پیچھے تیری تلوار لگی رہتی ہے

میں کہیں بھاگنے والا نہیں لیکن مجھ پر
اک نگاہ ِ در دیوار لگی رہتی ہے

پاوں اوپر تن ِ دشوار کہاں لے جاوں
پاوں نیچے رہ ِ بے کار لگی رہتی ہے

گر پڑے ہاتھ گریباں میں تو پوچھوں خود سے
کیوں مجھے گرمی ء گفتار لگی رہتی ہے

وہ یونہی آگ بگولا تو نہیں ہے ::: آتش
اندرون ِ سر ِ سردار لگی رہتی ہے

ہم تجھے ہاتھ ملاتے ہوئے پڑھ لیتے ہیں
ہاتھ میں سرخی ء اخبار لگی رہتی ہے

میں ہوں ناصر علی اس دکھ بھری مشکل کا شکار
جو سر ِ درہم و دینار لگی رہتی ہے

دوسری غزل

کام اتنے ہیں کہ بھرمار لگی رہتی ہے
اور دل ہے، اسے اتوار لگی رہتی ہے

ڈھول بجتے ہیں کئی شوق نگر کے اندر
مستی رقص ِ لگاتار لگی رہتی ہے

ایک غازے یا کسی سرخی ء خوباں جیسی
میرے منہ پر کوئی مقدار لگی رہتی ہے

پیڑ بھی کوئی نہیں سامنے والے گھر میں
پر وہاں شاخ ِ ثمربار لگی رہتی ہے

شہر میں اور بھی لاکھوں ہیں پہ دم سے تیرے
صاحبا ، رونق ِ بازار لگی رہتی ہے

بے سبب تو نہیں ناصر علی یہ آرائش
زینت ِ یار ِ سمجھدار لگی رہتی ہے

ناصر علی

Post a Comment