خود میں اترے، تیری طغیانی سے باہر آ گئے
آ کے گہرائی میں ہم پانی سے باہر آ گئے
اس کی رونق میں بہت سنسان سے لگتے تھے ہم
شہر سے نکلے تو ویرانی سے باہر آ گئے
لفظ وہ، جن کو زباں پر لانے کی ہمت نہ تھی
آخر اک دن میری پیشانی سے باہر آ گئے
دم بخود اس حسن ہی کو دیکھتے رہتے تھے ہم
خواب ٹوٹا اور حیرانی سے باہر آ گئے
آستیں میں پل رہے تھے، لیکن اک دن ہوں ہوا !!!
سانپ ” آپس کی پریشانی ” سے باہر آ گئے
وہ تعلق ایک خواب ِ قید جیسا تھا ظہیر
آنکہ کھلتے ہی کس آسانی سے باہر آ گئے
ثناءاللہ ظہیر

Post a Comment