وہی پُرانے منظر اب تک ، وہی پرانا حال
کس نے کہا ہے بیت گیا ہے ، درد کا میلا سال

کچھ نہیں بدلا ہندسوں کی تبدیلی سے دنیا میں
وہی پرندے ، وہی شکاری ، وہی طلسمی جال

اپنی بگڑی کب بن پائے گی اس کالے یُگ میں
شاید جب آکاش کی شہ پر دھرتی بدلے چال

کیسا سخت خزاں کا منظر ہم پر وحی ہپوا ہے
سوکھا سا اِک ٹھُنٹھ کھڑا ہے ، جس کے پات نہ ڈال

سالِ نو کے پہلے دن بھی خود کُش بمباری سے
راوی اور چناب کے پانی کا ہر قطرہ لال

روک لے اپنی آنکھوں کو مسعود کسی حیلے سے
ورنہ اشکوں سے بھر جائیں گے ندیاں اور تال

مسعود منور

Post a Comment