شب۔ حیات میں روشن دیا , حسین کا ہے
فنا کے دشت میں نقش۔ بقا , حسین کا ہے

اندھیری رہ میں جلائے چراغ۔ صدق و صفا
میں چل پڑا کہ یہی راستہ حسین کا ہے

دمشق و کوفہ و دشت۔ بلا پہ کیا موقوف
تمام حلقہء دین۔ خدا حسین کا ہے

زباں دراز ، یوں قدسی صفت کا نام نہ لے
تجھے خبر بھی ہے کیا مرتبہ حسین کا ہے

میں خاک۔ تربت۔ مظلوم ساتھ رکھتا ہوں
کہ اس زمین میں وصف۔ شفا، حسین کا ہے

میں اسلئے بھی تو سر کو جھکائے رکھتا ہوں
کہ میرے شانے پہ دست۔ سخا حسین کا ہے

مجھے غرض نہیں دار۔ فنا کے حاکم سے
مجھے خبر ہے کہ دار۔ بقا حسین کا ہے

شرف ہے میرے لئیے اس پہ جان دیدینا
مرے عزیز ، یہ فرش۔ عزا حسین کا ہے

خیام۔ شاہ میں جو جل گیا، حسین کا تھا
متاع۔ دین میں جو بچ گیا، حسین کا ہے

مجید اختر

Post a Comment