اکھاڑا جم چکا تھا، طرفین نے اپنی اپنی چوکیاں چن لی تھیں۔ پِڑکوڈی کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے ہوئے ڈھول کے گرد گھوم رہے تھے۔ انہوں نے رنگین لنگوٹیں کس کر باندھ رکھی تھیں، ذرا ذرا سے سفید پھینٹے ان کے چپڑے ہوئے لانبے لانبے پٹوں کے نیچے سے گزر کر سر کے دونوں طرف کنول کے پھولوں کے سے طرے بنا رہے تھے، وسیع میدان کے چاروں طرف گپوں اور حقوں کے دور چل رہے تھے اور کھلاڑیوں کے ماضی اور مستقبل کو جانچا پرکھا جارہا تھا۔

مشہور جوڑیاں ابھی میدان میں نہیں اتری تھیں۔ یہ نامور کھلاڑی اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے گھیرے میں کھڑے اس شدت سے تیل چپڑوا رہے تھے کہ ان کے جسموں کو ڈھلتی دھوپ کی چمک نے بالکل تانبے کا سا رنگ دے دیا تھا۔ پھر یہ کھلاڑی بھی میدان میں آئے۔ انہوں نے بجتے ہوئے ڈھولوں کے گرد چکر کاٹے اور اپنی اپنی چوکیوں کے سامنے ناچتے کودتے ہوئے بھوگنے لگے اور پھر آنا فانا سارے میدان میں ایک سرگوشی بھنور کی طرح گھوم گئی مولا کہاں ہے؟۔

مولا ہی کا کھیل دیکھنے کو تو یہ لوگ دور دراز کے دیہات سے کھچے چلے آئے تھے۔ مولا کا جوڑی وال تاجا بھی تو نہیں! دوسرا بھنور پیدا ہوا اور لوگ پوربی چوکی کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتے بڑھنے لگے، جما ہوا پِڑ ٹوٹ گیا۔ منتظمین نے لمبے لمبے بیدوں اور لاٹھیوں کو زمین پر مار مار کر بڑھتے ہوئے ہجوم کے سامنے گرد کا طوفان اڑانے کی کوشش کی کہ پِڑ کا ٹوٹنا اچھا شگون نہ تھا، مگر جب یہ سرگوشی ان کے کانوں میں بھی پہنچی تو وہ بھی ہجوم کے ساتھ ہولیے اور پھر اتنے میں جیسے میدان میں سیروں بارود سے بھرا ہوا گولا ایک چکرا دینے والے دھماکے سے پھٹ پڑا۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا۔

لوگ پِڑ کی چوکور حدوں کی طرف واپس جانے لگے۔ مولا اپنے جوڑی وال تاجے کے ساتھ میدان میں آگیا۔ اس نے پھندنوں اور ڈوریوں سے سجے اور لدے ہوئے ڈھول کے گرد بڑے وقار سے تین چکر کاٹے اور پھر ڈھول کو پوروں سے چھوکر یا علی کا نعرہ لگانے کے بعد ہاتھ ہوا میں بلند کیا ہی تھا کہ ایک آواز ڈھولوں کی دھمادھم کو چیڑتی بھاڑتی اس کے سینے پر گنڈاسا بن کر پڑی۔ مولے! اے مولے بیٹے! تیرا باپ قتل ہوگیا!۔

مولا کا اٹھا ہوا ہاتھ سانپ کے پھن کی طرح لہرا گیا اور پھر ایک دم جیسے اس کے قدموں میں پہئے نکل آئے۔ رنگے نے تیرے باپ کو ادھیڑ ڈالا ہے گنڈاسے سے۔ اس کی ماں کی آواز نے اس کا تعاقلب کیا! ۔ ٹوٹ گیا، ڈھول رک گئے، کھلاڑی جلدی جلدی سے کپڑے پہننے لگے۔ ہجوم میں افراتفری پیدا ہوئی اور پھر بھگڈر مچ گئی۔ مولا کے جسم کا تانبا گاں کی گلیوں میں کوندے بکھیرتا اڑا جارہا تھا۔ بہت پیچھے اس کا جوڑی وال تاجا اپنے اور مولا کے کپڑوں کی گھٹڑی سینے سے لگائے بھاگا جا رہا تھا اور پھر اس کے پیچھے ایک خوفزدہ ہجوم تھا۔

جس گاں میں کسی شخص کو ننگے سر پھرنے کا حوصلہ نہ ہوسکتا تھا وہاں مولا صرف ایک گلابی لنگوٹ باندھے پنہاریوں کی قطاروں اور بھیڑوں بکریوں کے ریوڑوں کو چیرتا ہوا لپکا جا رہا تھا۔ اور جب وہ رنگے کی چوپال کے بالکل سامنے پہنچا تو سامنے کے ایک ہجوم میں سے پیر نور شاہ نکلے اور مولا کو للکار کر بولے رک جا مولے!۔ مولا لپکا چلا گیا مگر پھر ایک دم جیسے اس کے قدم جکڑ لیے گئے اور وہ بت کی طرح جم کر رہ گیا۔ پیر نور شاہ اس کے قریب آئے اور اپنی پاٹ دار آواز میں بولے تو آگے نہیں جائے گا مولے!۔ ہانپتا ہوا مولا کچھ دیر پیرنور شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا، پھر بولا آگے نہیں جاں گا پیر جی تو زندہ کیوں رہوں گا؟۔

تحریر : احمد ندیم قاسمی





Post a Comment