نہ چھت نہ دیوار ہے مگر در بنا لیے ہیں
یہ ہم نے کیسے عجیب سے گھر بنا لیے ہیں
وہ کہہ رہے تھے کہ عشق تقلید چاہتا ہے
سو ہم نے بھی سارے اشک، پتھر بنا لیے ہیں
سو اب میں صحرا کے ساتھ رہتا ہوں اپنے گھر میں
سبھی دریچے ہَوا کے رخ پر بنا لیے ہیں


وہ جس ورق سے مجھے بنانا تھی ایک کشتی
اسی ورق پر کٸ سمندر بنا لیے ہیں
مگر پہل اب بھی ہم کو کرنا ہے بے رخی میں
جواز ویسے تو اس نے بہتر بنا لیے ہیں
نہ جانے کیوں آسماں بہت یاد آ رہا تھا
سو کچھ ستارے ہی سونی چھت پر بنا لیے ہیں
وہ ایک سادہ سی شام تھی پر مِری نظر نے
اس ایک منظر سے کتنے منظر بنا لیے ہیں

Post a Comment