محمد حمید شاہد بحیثیت افسانہ نگار، ناول نگار اور نقاد کے ایک واضح شناخت رکھتے ہیں ۔ حال ہی میں ان کا افسانہ ”لوتھ“ بھارت میں اردو نثرکی نصابی کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے دوسرے ادیب ہیں ان سے قبل انتظار حسین کا افسانہ ”بادل“ اس نصابی کتاب کی زینت بنا۔ ان کے انداز بیان میں سادگی ، خلوص اور خیالات میں نیاپن اور تازگی ہے ۔وہ کہانی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر حاوی ہیں۔ ان کے ہاں صورت حال کوجرات سے دےکھنے اور مزاحمت سے تخلیقی سطح پر برتنے کا رویہ بھی ملتا ہے اور خیالات کو لگی لپٹی رکھے بغیر صاف گوئی سے بیان کرنے کا حوصلہ بھی ۔ جہاں تک طرز تحریر کا تعلق ہے وہ صاف ستھری اور رواں نثر لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے تنقید نگاری میں جو غیر متعصبانہ انداز اختیار کیا ہے اس سے ان کی معروضیت اور ذمہ داری کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔

محمد حمید شاہد کی تصانیف میں بند آنکھوں سے پرے، جنم جہنم، مرگ زار،محمد حمید شاہد کے پچاس افسانے،مٹی آدم کھاتی ہے، ادبی تنازعات،اردو افسانہ صورت و معنی،اشفاق احمد شخصیت اور فن، پیکر جمیل، لمحوں کا لمس، الف سے اٹکھیلیاں،سمندر اور سمندر، شامل ہیں۔ حمید شاہد کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں سیدہ ظہیرہ النسا تعلیمی ایوارڈ، این سی سی گولڈن جوبلی ایوارڈ اور میاں محمد بخش ایوارڈ سے نوازا گیا۔

-----------------------------------------------------------------------------------------------

س : آپ کے افسانوں کی کتابیں بند آنکھوں سے پرے، جنم جہنم اور مرگ زار کے بعد اب تو پچاس افسانوں کا

انتخاب بھی چھپ چکا ہے، آپ مٹی آدم کھاتی ہے کے نام سے معروف ناول لکھا اور فکشن کی تنقید میں اردو افسانہ صورت و معنی جیسی اہم کتاب دی تو پھر اس نثری نظم جسے آپ نثم کہتے ہیں، میں آپ کی دلچسپی کے کیا معنی ہیں ؟

محمد حمیدشاہد: میںکہتا آےا ہوں کہ میں فکشن کی طرف دوسری اصناف سے ہو کر آیا ہوں ، شاعری ، نثم، حتی کہ انشائیہ بھی میری بھی ایک زمانے میں میری دلچسپیاں کھینچتے رہے ہیں ۔ تاہم میںسمجھتا ہوں کہ وہ صنف جس نے مجھے تخلیقی سطح پر اپنے حصار میں لے لیا وہ فکشن ہی ہے۔تخلیقی عمل ٹوٹنے والے ستارے کی طرح چمک کر نظر سے اوجھل نہیں ہوجاتا یہ تو آپ کی روح میں عجب طرح کا اضطراب بھر دےتا ہے ۔ انوکھی سی بے کلی کہ آپ مسلسل اندر ہی اندر سے ٹوٹتے اور بنتے چلے جاتے ہیں ۔ کہانی لکھنا ، محض وقوعہ لکھ لینے کانام نہیں ہے،اسی تخلیقی عمل کے تسلسل اور بے پناہی سے جڑ جانے کا نام ہے۔

س: آپ کا ادبی فلسفہ کیا ہے؟

محمد حمید شاہد:دیکھئے ہر آدمی کی فکر کا اپنا علاقہ ہوتا ہے ، اور وہ جو کسی نے کہا ہے کہ جس کا نقطہ نظر نہیں ہوتا اس کے پاس نظر ہی نہیں ہوتی درست ہی کہا ہے ، تاہم اس امر کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہر فرد تخلیقی سطح پر مختلف ہوجاتا ہے ۔ آپ ایک گروہ ،ایک جماعت اور ایک بھیڑ کو ایک وقت میں ایک ہی نعرہ لگاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں تخلیقی مزاج کے اعتبار سے دو آدمی بھی آپ کو ایک جیسے نہ ملےہوں گے ، جو جینوئن ہوں اور ایک جیسا لکھ رہے ہوں ۔ بالکل ایسے ہی جس طرح دستاویزات پرہر انگوٹھا لگانے والا الگ سے پہچانا جا سکتا ہے بالکل اسی طرح سچا تخلیق کار دوسروں سے الگ کھڑا نظر آتا ہے ۔ یہ بجا کہ تخلیقی عمل معنی کی تکثیریت اور جمال کی ہمہ گیری کے امکانات کی تلاش کا نام ہے مگر یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہر تخلیق کار کے ہاں معنی اور جمال کی ایک الگ کائنات بنتی ہے ۔

س: تخلیقی عمل کو آپ اس معاشرتی فضا سے کاٹ کر تو نہیں دیکھ سکتے جس میں ادب رہ رہا ہوتا ہے؟

محمد حمید شاہد: یہ بجا کہ لگ بھگ ایک سی فضا میں رہنے والے ادب کی ایک ہی نہج میں سوچنے لگیں ،تاہم تخلیقی عمل کے دوران معنی کی تکثیریت اور جمال کی ہمہ گیری کا جو علاقہ بنتا ہے وہ فن پارے کی خارجی ہیئت سے کہیں زیادہ اس کے باطنی امیج سے بنتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیقیت کا بھید اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ مَتن کس طرح اور کس حد تک لفظوں کے باطنی امیج کے روشن کناروں سے جا کر جڑ جاتا ہے۔ انسان کا شعور دو حصوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے ‘ وجدان اور ذہانت۔ تخلیقی عمل کے دوران وجدان اور ذہانت دونوں کو دو مختلف اورمتضاد ابعاد پر موجود رہنا چاہیے ۔ جس طرح کوئی حساس انسانی وجود ایک زندگی سماجی سطح پر جی رہا ہوتا ہے اور ایک باطنی سطح پر، بالکل اسی طرح لفظ کی ایک حیثیت عبارت کے اندر بنتی ہے اور دوسری معنیاتی سطح پر ۔اور یہاں مراد محض وہ معنی نہیں ہیں جو لغت میں درج ہوتے ہیں ‘ نہ وہ معنی مراد ہیں جو جملے کی عمومی ترتیب بدل دینے سے اس میں آ جاتے ہیں‘جو عصری حسیت اس میں ڈال دیتی ہے یا پھر جو قاری کا بدلتا شعور اس سے برآمد کرتا رہتا ہے۔میں تو تخلیقی عمل کے دوران کے امکانی معنوں کی بات کر رہا ہوں جو ایک تخلیق کار کی دسترس میں تب آتے ہیں جب وہ خیر اور سچائی کے جذبے کے ساتھ تخلیقی عمل کے پراسرار علاقے میں اندر تک گھس جاتا ہے۔ میں اپنے تخلیقی تجربے اور ادبی تاریخ کو سامنے رکھ بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ تخلیق عمل کے دورانیے میں فرد کا ذاتی جوہر مقدم رہتا ہے باقی سارے خارجی سہارے پسپا ہو جاتے ہیں ۔

س: تو پھر یہ نثری نظم کیا ہے؟ کیا اسے ادبی صنف کہا جاسکتا ہے ؟

ج: جی ، یہ اپنی تخلیقیت کے وصف کی وجہ سے خالص ادبی صنف ہے ۔ تاہم میں کہتا آیا ہوں کہ اس صنف کو شاعری کی مروجہ اصناف سے خلط ملط کرنا مناسب نہ ہوگا ۔ یہی سبب ہے کہ میں اسے الگ نام ”نثم“ سے پکارنے پر اصرار کرنے والوں کا ساتھ دیتا آیا ہوں ۔ لطف کی بات دیکھئے کہ یہ لفظ جدید فارسی لغت کا حصہ ہوگیا ہے اور انہی معنوں میں قبول کرلیا گیا ہے جن میں ہم اسے اردو میں استعمال کرنے کے لئے تجویز دے رہے تھے ۔ گذشتہ دنوں ریاض مجید ایران گئے تو وہ لغات بھی لیتے آئے اور اس کا ایک صفحہ فوٹو اسٹیٹ کرکے مجھے بھیجا جس میں ”نثم “ کا لفظ ایسی صنف کے لیے قبول کرلیا گیا تھا جس کا خارج تو نثر کے پیرائے میں ہو مگر اپنے مواد کے اعتبار سے شاعری ہو۔ خیر یہ تو نام کا جھگڑا ہوا جسے اب طے ہوجانا چاہئے۔

س : میرا سوال یہ ہے کہ موزونیت سے آزادی کیا شعریت کو متاثر نہیں کرتی ؟

محمد حمید شاہد:ہوتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کون سی شعریت؟، وہی نا، جو فن پارے کے خارج میں بن رہی ہوتی ہے ، اپنے خارجی وسیلوں سے ۔ ظفر اقبال کی ایک حال ہی میں نظم چھپی ہے ”آدمی نامہ“ اس میں وہ کہتا ہے:کچھ گھاس ہوں تو باقی/سب پھوس آدمی ہوں/نکلا ہوا خود اپنا /کیا جوس آدمی ہوں“ ظفر اقبال ہمارے عہد کے نماےاں ترےن شعرا میں سے ہے مگر اس کے ہاں خارجی شعریت کا اہتمام بھی اس جمالیاتی اور معنیاتی قرینے سے معاملہ کرتا نظر نہیں آتا جس پر نثم اصرار کیا کرتی ہے ۔ سچ پوچھیں تو نثم لکھنے والے سے وہ سارے خارجی سہارے چھوٹ جاتے ہیں جو ایک عامیانہ اورکمتر سطح کی تحریر میں موزونیت جیسی خارجی بیساکھی سے شعریت کا التباس پیدا کر رہے ہوتے ہیں ۔

س:شاعری اور افسانے کو قریب لانے سے کیا شاعری کو نقصان نہیں پہنچا؟

محمد حمید شاہد:شاعری تو اپنے آغاز سے ہی کہانی کی طرف لپکتی رہی ہے ۔ شاعری کی قدیم تاریخ کھنگال کر دیکھ لیں ، جی یونان کے نابینا شاعر ہومر کی ایلیڈ اور اوڈیسی ہی کو دیکھ لیں کہانی اس میں بھی آپ کو مل جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ ہو مر نے ان میں لکھا وہ تو اس سے بھی پہلے کہانی اور داستان کی صورت ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا آیا تھا تو گویا کہانی توازل سے شاعری کے اندر روح بن کردوڑتی رہی ہے ، روح جو زندگی کا استعارہ ہے ۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کہانی کے بہاﺅ میں شاعرانہ جملوں کے رخنے رکھ دینے کے چلن سے اصل نقصان تو افسانے کا ہوا ہے ۔ تاہم اب افسانہ اپنے تخلیقی آہنگ میں آچکا ہے۔ جہاں تک نثم اور افسانے کا معاملہ ہے تو یوں ہے کہ دونوں اصناف اپنا الگ مزاج رکھتی ہیں کوئی بھی اناڑی اگر انہے سمجھے بغیر گڈمڈ کرے گا مارا جائے گا۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ایک سچا تخلیق کاراصناف کی حد بندیوں کواپنے تخلیقی جواز کے ساتھ توڑتا رہتا ہے اور اسی سے نئی راہیں کھلتی ہیں۔

س: کچھ ترقی پسند افسانے کی روایت کے بارے میں کہیں، اور کیا اس روایت سے کٹنے کی وجہ سے اردو افسانہ غیر فعال نہیں ہو گےا؟

محمد حمید شاہد: پہلے تو اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ ترقی پسندوں کے ایک جتھے کی صورت متحرک ہونے سے پہلے ہمارے ہاں اَفسانے کی مغربی رَوایت خاصی مستحکم ہو چکی تھی اور یہ بھی کہ اُردو میں افسانے کا آغاز وہاں سے ہوا جہاں تک مغرب میں اَفسانہ پہنچ چکا تھا۔ پریم چند کا معروف اَفسانہ ”کفن“ (1953۵۳۹۱ءمیں منظر عام پر آیا تھا۔ یہی وہ سال بنتا ہے جب دُنیا بھر کے مختلف ممالک میں ترقی پسندوں کی تنظیم سازی ہوئی۔ سید سجاد ظہیر تعلیم کی غرض سے لندن میں تھے۔ سرمایہ داری اور اِشتراکیت کی کشمکش کے اس عہد میں اُس کے رابطے اشتراکیوں کے ساتھ تھے ۔ اسی سال اُس نے پیرس میں منعقد ہونے والی” ورلڈ کانگریس آف رائٹرز فار ڈیفنس آف کلچر“ میں شرکت کی اور اگلے برس کیمونسٹ پارٹی آف انگلینڈ کا رکن ہو کرہندوستان آیا تو انجمن ترقی پسند مصنفین وجود میں آگئی۔ ۶۳۹۱ءہی وہ سال بنتا ہے جس میں اُردو کے پہلے اَفسانہ نگار علامہ راشد الخیری اور اُردو کے پہلے اَہم اَفسانہ نگار منشی پریم چند دونوں نے وفات پائی۔ مگر یہیں مجھے اس سے چند برس پہلے کے ایک اہم واقعے کا ذکر کرنا ہے جس کے اُردو اَفسانے پر اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ سجاد ظہیر جو لندن میں تھا‘۲۳۹۱1923ءمیں تعطیلات کے دوران ہندوستان آیا اور احمدعلی‘ محمودالظفراور رشید جہاں کی مشاورت اور شراکت سے چند تحریروں کا انتخاب ”انگارے“ کے نام سے شائع کردیا۔ ”انگارے“ سچ مچ کا دہکتا ہوااَنگارہ ثابت ہوا کہ جہاں پڑا وہاں سے ساکت اَدبی ماحول کے بُھوسے سے شعلے اُٹھنے لگے ۔ سارے جہان میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی۔ ڈیڑھ سو سے بھی کم صفحات پر مشتمل اِس اَہم کتاب کی تحریروں میں سجاد ظہیر کے پانچ، احمد علی کے دو اور رشید جہاں اور محمودالظفر کا ایک ایک اَفسانہ شامل تھا۔گویا بغیر دِیباچے کے اس اِنتخاب میں کُل نو اَفسانے شامل تھے ۔ اِن افسانوں کی اِس اِنتخاب کی صورت میں اِشاعت سے کہیں زیادہ اہم ردعمل اور ہنگامہ وہ بنتا ہے جو بعد میں اٹھایا گیا ۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ بعد میں صرف احمد علی ہی اَفسانہ نگار کی حیثیت سے شناخت بنا نے والا تھا جب کہ انتخاب میں شامل اُس کا اَفسانہ ” مہاوٹوں کی رات“ پہلے ہی ”ہمایوں “ میں شائع ہو چکا تھااور اُس کا دوسرا اَفسانہ ”بادل نہیں آئے“ عجلت میں لکھی ہوئی ایک تحریر لگتی تھی۔ خیر”انگارے “ کو فحش ‘دِل آزار‘اخلاق سوز اور شعائرِ اسلام کے خلاف سازش قرار دیا گیا۔ ±”انگارے“ کی تحریروں میں اِن اِلزامات کو سچ ثابت کرنے لیے خاصا مواد موجود بھی تھا۔ تو یوں ہے کہ وہ کام جو یہ اَفسانے ہر گز نہ کر سکتے تھے ہو گیا تھا کہ بقول جوگندر پال یہ کوئی Topnoutch افسانے نہیں تھے‘ شدید مخالفت کے طوفان اور ”انگارے“ کی ضبطی نے وہ کام کر دکھایا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کے اعلان نامے پر جن افسانہ نگاروں نے دستخط کیے تھے اُن میں پریم چند‘ مولانا نیاز فتح پوری‘ قاضی عبدالغفار‘ اور علی عباس حسینی کے نام بھی آتے ہیں ۔ نیاز فتح پوری کا مُعامِلہ یہ رہا ہے کہ اُردو اَفسانے کو وہ کوئی نیا رجحان نہ دے سکا تاہم اُس کے اَفسانوں میں مذہبی رہنماﺅں اور پیشواﺅں کے کھوکھلے پن پر شدید چوٹیں لگائی گئیں۔ مجموعی طور پر نیاز کا رویہ رومانوی بنتا ہے ۔ قاضی عبدالغفار کا رویہ بھی لگ بھگ نیاز اور مجنوں گورکھپوری ہی کا سارہا ہے ۔ وہ بہت سے مقامات پر عورت کی نفسیات کھنگالتا اور پھراسی میں اُلجھتا ہوا نظرا ٓتا ہے ۔ رومانویت کا وہ تصور جو یلدرم کے اَفسانوں سے پُھوٹا تھا اور حقیقت پسندی کا وُہ ہیولا جو پریم چند نے بنایا تھا‘ اُردو اَفسانے میں رواج پاچکا تھا لہذا علی عباس حسینی بھی اسی کی پیروی کر رہے تھے۔ بات ےہ ہے کہ عین آغاز میں ہی اچھا اَفسانہ لکھنے والوں کا ایک گروہ ترقی پسندوں کے ساتھ ہو لیا ۔ ان سب اَفسانہ نگاروں کے تخلیقی رجحانات قطعاًایک رُخ پر نہیں تھے۔ کرشن چندر کے افسانوں کو پڑھ جائیے‘ اس کے ہاں انفرادی کردار ‘ اجتماعی معاملات سے کہیں زیادہ توجہ پاتے ہیں۔ میرے اِس دعویٰ کی فوری مثالیں ”متی “اور ” کالوبھنگی“ ہیں۔اوپندر ناتھ اشک کی ترقی پسندی اور حقیقت نگاری بجا مگر اُس کی رومان پسندی اور نفسیاتی ٹریٹمنٹ بھی کہیں مات نہیں کھاتی۔ دیوندر ستیارتھی کی پہچان بلاشبہ اُس کی ترقی پسندی تھی مگر جنسی اور نفسیاتی اُلجھنوں پر لکھنا اور نسائی کرداروں کے پیکر تراشنا اُسے مرغوب تھا۔ماننا ہوگا کہ خارج میں اُٹھنے والے ایسے فکری اُبھاروں اور اَدبی تحریکوں کے زیرِ اَثر ایک رجحان بن جاتا ہے جو تخلیق کے دھیمے مزاج کا آہنگ بگاڑ دےتا ہے ۔ تخلیقی عمل ایسی کیمسٹری ہے جو لکھتے ہوئے تخلیق کار کوفن پارے کے فنی لوازم سے جوڑ دیتی ہے ۔ مثلاراجندر سنگھ بیدی اور سعادت حسن منٹو کے نام ذہن میں رکھیں جنہوں نے اُردو اَفسانے کے ناتواں جسد میں نئی روح پھونک دی تھی تو کیا اسے خارج میں چلنے والی تحریکوں کا شاخسانہ کہا جا سکتا ہے ؟ نہیں بالکل نہیں، بیدی کو فارمولا کہانی لکھنے والوں پر طیش آتا تھا۔ اُس نے جب ہر طرف ایک جیسی فارمولا کہانیوں کا ڈھیر دیکھا تو کہا تھا” کہانی تو لکھی ہی نہیں جارہی ہے ۔ وہی گھسی پٹی باتیں ‘ وہی سیاسی خیالات‘ کچھ امیر غریب کے جھگڑے ۔ بس یہی کچھ لے دے کر کہانی مکمل ہو جاتی ہے ۔ بہت ہوا تو کہانی کا پس منظر بدل دیا ۔ “ ہمارے ناقدین کہتے نہیں ہچکچاتے کہ ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی عطا یہ ہے کہ اُس نے اُردو ادب کو بیدی جیسا بڑا اَفسانہ نگار دیا ۔ بیدی بھی اس تحریک کو بہت مانتا تھا تاہم نریش کمار شاد کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا تھا: ” میرے نزدیک ترقی پسندی کا وہ مفہوم نہیں جو میرے چنددوستوں کا ہے ۔ میں کسی کو اِس بات کی اِجازت نہیں دے سکتا کہ وہ میرے لیے قانون وضع کرے یا کسی طرح سے میری حد بندی کرے۔ “ بیدی نے حد بندیاں توڑیں اور سُرخُرو ہوا ۔ منٹو کا قصہ یہ ہے کہ اسے تو خود ترقی پسندوں نے رجعت پرست قرار دیا تھا۔ منٹو شروع میں اِنقلابی حقیقت نگاری کی طرف ضرور متوجہ رہا مگر بہت جلد وہ زندگی کے سنگین حقائق کے مقابل ہو گیا تھا ۔ منٹو نے ” چغد“ کے دیپاچے میںلکھا تھا کہ ”بابو گوپی ناتھ“ جب ”ادب لطیف“ میں شائع ہوا تو تمام ترقی پسند مصنفین نے اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے ۔ علی سردار جعفری ‘ عصمت چغتائی اور کرشن چندر نے خصوصاً اس کو بہت سراہا۔ مگربعد میں سب اِس اَفسانے کی عظمت سے منحرف ہو گئے پہلے دَبی زبان میں اِس پر تنقید شروع ہوئی ‘ سرگوشیوں میں اِس کوبُرا بھلا کہا گیا اور بعد میں بھارت اور پاکستان کے تمام ترقی پسند ممٹیوں پر چڑھ کر اِس اَفسانے کو رجعت پسند‘ اِخلاق سے گرا ہوا ‘ گھناﺅنا اور شر انگیز قرار دےنے لگے ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب ترقی پسندوں نے منٹو کا بائیکاٹ کر دیا۔ تو یہ ہے منٹو کی ترقی پسندی کا قصہ۔ مگر یوں ہے کہ منٹو صف ِاوّل کا اَفسانہ نگار تسلیم کیا جا چکا اور جب تک اُردو اَفسانے کا قصہ چلے گا کوئی منٹو کو اِس منصب سے الگ نہ کر پائے گا ۔تو یوں ہے کہ وہ مضامین جو ترقی پسندوں کو مرغوب تھے ، شروع ہی سے ادب کا موضوع رہے ہیں ، خرابی انہیں نعرہ بنانے سے ہوئی ۔ جسے اب آپ غیر فعال ہونا کہہ رہی ہیں فی الاصل اس کے اندرسے اس نعرہ بازی کی منہائی ہے جس نے ادب کو خبر بنانے کی بجائے تخلیقیت سے جوڑ دیا ہے۔

س: ساٹھ اور ستر کی دہائی میں علامت اور تجرید کا چرچہ رہا اور اب افسانے میں کہانی کی واپسی کی بات ہو رہی ہے اس باب میں آپ کیا کہیں گے؟

محمد حمید شاہد:لطف کی بات یہ ہے کہ افسانے میں کہانی کی واپسی کی خوش خبری بھی وہی سنا رہے ہیں جو کل تک افسانے میں کسی مربوط کہانی کی موجودگی کو روایت زدگی کا شاخسانہ قرار دے رہے تھے ۔ جن علامت نگاروں کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے ان میں سے بیشتر بس ایک ہی طرح کی تحریروں کو انشائی اسلوب میں لکھ کر یا شاعرانہ جملوں کا قرےنہ اپنا کر افسانے کا التباس پیدا کرتے رہے ۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ترقی پسندوں کے اثرات سے بچ نہیں پائے ہیں تاہم انہوں نے اس اسلوب کو رد کر دیا تھا جو ترقی پسندوں کو مرغوب تھا بلکہ فی الاصل جو افسانے کی مستحکم روایت بھی تھا۔ میں اسے غلط فہمی ہی کہوں گا کہ تخلیقی عمل میں خارجی جبر فن پارے کی مَتنی سطح کو بھی کھردراا ور غیر مربوط کردینے کاجواز بن جاتا ہے ۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ تخلیقی عمل میں مَتن کی سطح بھی اپنے باطن کی طرح اپنی کُل کے ساتھ ایک مَتناسب آہنگ سے جڑی ہوتی ہے۔ اسی تناسب کا مرکب فن پارے کے حسن کا مظہر بنتا ہے ۔ یہ بھی غلط فہمی ہے کہ کردار یا واقعہ اپنی مکمل صورت کے ساتھ علامت اور تمثیل کی سطح کو نہیں پہنچ سکتا اور یہ بھی اِنتہائی گمراہ کن بات ہے کہ کردار اور کہانی سے تخلیقی سطح پروفاکے رشتے میں جڑی ہوئی زبان لسانی سطح پر علامتی مفاہیم ادا کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے۔ اب اگر ہم ان غلط فہمیوں کو رفع کر لیتے ہیں تو ہمارے لیے بیانیہ توڑ توڑ کر علامت کی پھانس لگانے کے جتن کرنا تخلیقی عمل کے رَخنوں کے مترادف ہو جائے گا اور ہم تخلیق پارے کو کلی صورت میں دیکھنے لگےں گے۔ ستر کی کے بعد سامنے آنے والے اَفسانہ نگاروں کو کوئی ایسی درفنتنی نہیں سوجھتی جو افسانے کو معمہ بنا ڈالتی ہے۔ بلکہ صورت واقعہ یہ ہے کہ اب کہانی تخلیقیت کے داخلی تجربے سے جڑ گئی ہے ۔ اب رومان ہو یا حقیقت‘ احتجاج ہو یا انجذاب اور امتزاج سب ایک تخلیقی تجربے کی اکائی میں ڈھل کر فن پارہ بنتے ہیں ‘ یوں کہ الگ الگ ان کے کوئی معنی نہیں ہوتے مگر اپنی کل میں ان کا اظہار خارجی سطح پر مربوط اور مرصوص کہانی کی صورت ظاہر ہوتا ہے جو اپنی عصریت کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہوتی ہے اورباطنی سطح پر پوری کہانی ایک کل کی صورت میں ایک بڑی اور حقیقت کی علامت بن جاتی ہے ۔

س: آپ کی تخلیقات کا بنیادی محور آپ کی نظر میں کیا ہے ؟

ج: صاحب ہمیں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ مدت ہوئی خدا‘انسان اور کائنات کی مثلث تو کب کی ٹوٹ چکی ۔اور اصرار کیا جاتا ہے کہ وہ جو ژاں پال سارتر نے تصور خدا کے باب میں جوہر کو وجود پر مقدم بتایا تھااب اسے مان لیا گیا ہے ۔ اور یہ کہ وہ سب جھوٹے تھے جوانسان کو کائنات کے مرکز میں رکھتے تو اور انسان کے سینے میں اس عزم کوبسانا چاہتے تھے کہ وہ کائنات کو تسخیر کرے ۔ تخلیق اب تک اپنے آپ کو بڑی توپ سمجھتا رہا لسانی تھیوریوں نے اس کے پڑخچے اڑا کر رکھ دیے ہیں ۔ اب صاف صاف کہا جارہا ہے کہ تخلیقی عمل کچھ بھی نہیں ہے لکھنے والا محض محرر ہوتا ہے عبارتوں کی تشکیل نو کرنے والا اور تحریر کے مکمل ہوتے ہی موت سے ہم کنار ہو جانے والا۔ کائنات کے بھی وہ معنی نہیں رہے جو تخلیقی عمل کو مہمیز لگاتے تھے یا لگا سکتے تھے اب یہ محض مادی حقیقت ہے گویا ایسا جسم جس میں روح ہیں ہے ۔ نظری مباحث کی اس دھول میں کہ جہاں خدا نہیں ہے‘ مصنف مر گیا ہے‘ تخلیق پارہ پہلے سے موجود متن کا عکس نو ہو گیا ہے‘ معنی بے دخل ہو چکے ہیں اور انسان اپنے منصب سے معزول ہو چکا ہے میرے جیسے تخلیق کا رکا ‘ جو کہ ان بنیادی اقدار سے ساتھ اپنے وجود کے پورے اخلاص کے ساتھ جڑا ہوا ہے ‘ اورکیا مقصد ہو سکتا ہے کہ تخلیقی عمل کو زندہ رکھا جائے ۔ میرے ہاں خدا موجود ہے اور اس کی خدائی بھی ۔ اور اس کی خدائی کے مرکز میں انسان موجود ہے اپنے پورے وقار کے ساتھ۔ میری نظر میں ہر نئی مگر خالص ادبی تخلیق پہلے سے موجود ادبی متون کا چربہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے توسیعی علاقہ فراہم کرتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شعوری عمل سے بچ کر اور ایک بے خودی کے آہنگ میں رہ کر نئے معنی کی تلاش کو جمالیاتی ہمہ گیری کے وصف کے ساتھ ممکن بنانے کو ہی میں اپنی تخلیقات کا محور کہہ سکتا ہوں ۔

س:مزاحمتی ادب کے بارے میں آپ کا نقطہ نظر ؟

محمد حمید شاہد: میرا خیال ہے ‘ یہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ادب اپنی نہاد میں ہوتا ہی مزاحمتی ہے۔ وہ مفاہمتی تو بالکل نہیں ہوتا اور اسٹیس کو بھی اس کے لیے مردود علاقہ ہے ۔ ہمارے ہاں کے ادب میں بھی یہ وصف مستقلاً موجود رہا ہے ۔ تاہم جب جب اس رویے کو نعرے لگا لگا کر بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی ادب پارے کم اور مزاحمت پارے زیادہ سامنے آئے ۔ مزاحمت پارے وجود میں لانے کا عمل خارجی محرکات سے جڑا ہوتا ہے جس کے دباﺅ میں تخلیقی عمل اپنے بھید بھرے علاقے میں پوری طرح متحرک نہیں ہوسکتا۔ جس صورت حال کے خلاف مزاحمت مقصود ہے اس کے خلاف نفرت کو اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بنالینے والے سچے تخلیق کار کو اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ اب وہ مزاحمتی ادب لکھنے جارہا ہے ۔ اس وقت سب سے زےادہ نفرت ان داخلی اور بین الاقوامی استعماری قوتوں کا مقدر ہو گئی ہے جنہوں نے اپنے مفادات اور پیداواری وسائل کر قبضے کے لیے دنیا کو جہنم زار بنا کر رکھ دےا ہے اےسے ادےب جو اس نفرت کو فن پارے میں ڈھال لینے کی توفیق نہ رکھتے ہوں اور چھوٹی چھوٹی اچٹتی ہوئی مزاحمت کو ہی اپنا وظیفہ بنائے ہوئے ہوں ،انہیں مزاحمتی ادےب تو کیا سچا ادیب بھی نہیں سمجھنا چاہے ۔ سچا ادےب کبھی ظالم ، غاصب ، مکار اور جابر کا ساتھی نہیں ہوسکتا ہے ،ایسی منفی قوتوں کے مقابل بہر حال آنا ہی ہوتا ہے۔

س: کہا جاتا ہے کہ مذہبی رجحانات تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کرتے ہیں ، اس باب میں آپ کیا کہیں گے؟

محمد حمید شاہد: فکریات کا ادب پر اثر انہونی بات نہیں ہے ، اسی طر ح اعتقادات کو موضوع بنانا بھی ادب کے لیے ممنوعہ علاقہ نہیں ۔ جب جنس کو مرغوب رکھنے والے ادب لکھ سکتے ہیں اور جتنی دلدل بنا نا چاہیں بنا سکتے ہیں۔ جب اشتراکیت کو محبوب رکھنے والے بھی تخلیقی علاقے سے باہر نہیں نکالے گئے۔ رومان پرست ہوں ےا ترقی پسند سب ادب کی آنکھ کا تارا رہے تو آخر مذہبی رجحان رکھنے والوں پر اس باب میں قد غن کیوں کر لگا ئی جاسکتی ہے ۔ تاہم جاننا چاہیے کہ بڑھی ہوئی لذت پرستی ہو، ےا اپنے نظرےاتی جتھے کے افکار اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق لکھنے کا چلن، نعرے بازی ہو ےا وعظ اور نصےحت ، یہ سب ادب کو ادب نہیں رہنے دےتے ۔ جسے ادبی مزاج ودےعت ہوتا ہے وہ مذہبی رجحان رکھتے ہوئے بھی اقبال بن جاتا ہے ، معاشرے کی ٹھکرائی ہوئے اور جنس میں لتھڑی ہوئی عورت کے کردار کو محبوب رکھنے والا منٹو بن جاتا ہے ، اپنے انقلابی نظرےات کے لیے رومانی رویے تو ترک کیے بغیر گنجائشیں نکال لیتا ہے اور فےض بن جاتا ہے ۔

س: ہمارے ہاں تنقید میں تخلیق کو نظر انداز کر دیاجاتا ہے ،کیوں ؟

محمد حمید شاہد: جہاں تخلیق فن کے لیے زےست کا شعور چاہئیے ہوتا ہے، زبان اور فنون سے آگہی اور تہذےبی شعور درکار ہوتا ہے ، تخلیقی عمل سے جرنا اور مسلسل اس سے وابستہ رہنے کے جتن کر نے ہوتے ہیں ، وہیں ادب کے ناقدین پر بھی لازم ہے کہ وہ اس وسیع اور عمیق تجربے کو سمجھنے کے قرےنے ملحوظ خاطر رکھیں ۔ اےسی تنقید جو فقط الفاظ کا گورکھ دھندہ بن کر رہ جائے ےا محض تھیوریوں کی فلسفیانہ توجیہہ پر تمام ہوجائے اور کچھ ہو تو ہو ادبی تنقید نہیں ہو سکتی ۔ وہ سارے لسانی اور فلسفیانہ مباحث جو ادب پاروں کی تخلیق، توجیہہ، تعبےر اور تفہیم سے کو ئی علاقہ نہیں رکھتے تنقید کے نام پر بانجھ مشقت کے سوا اور کچھ نہیں ہیں ۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ کچھ عرصے سے تبدےلی آرہی ہے اب ادب کے اسالیب، جمالیات اور فنی اقدار پر گفتگو کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور اس سامراجی سازش کو بھی سمجھا جانے لگا ہے جس کے تحت فکری اور تخلیقی رویے غےر معمولی دباﺅ کا شکار ہو گئے تھے ۔

س: کیا ادب کے اثرات محدود پیمانے پر مرتب ہوتے ہیں ؟

محمد حمید شاہد: کہنے کو ادب کے اثرات محدود ہوتے ہوئے لیکن یہ گہری تبدیلی پیدا کرتے ہیں اور بسا اوقات یہ تبدیلی لامحدود وقت میں ایک تسلسل سے جاری رہتی ہے۔ ےوں اپنی اثر انگیزی کے اعتبار سے ادب بقا کے راستے پر چل رہا ہوتا ہے ۔

س: ادب کے فروغ و ترویج کے لیے کیا کرنا چاہیئے؟

محمد حمید شاہد: اگر آپ یہ کہیں کہ عصر رواں کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے تو میں اس باب میں کہوں گا ادبی اور علمی اقدار کی مادے کے ہاتھوں پسپائی ۔ مادے کی طمع میں بولائے پھرنے کا رجحان جس گذشتہ کچھ زمانے میں عام ہوا ہے اس نے معلومات کی تجمیع کو علم سے غلط طور پر گڈمڈ کر دیا ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے سماجی علوم کے شعبے یا تو ختم ہو رہے ہیں ےا پھر انہیں بے دلی سے چلایا جارہا ہے ۔ ادب اور سماجی علوم کو قومی ترجیحات میں جب تک بہتر مقام نہیں دیا جاتا یہ صورت بدلنے والی نہیں ہے ۔ تعلیمی اداروں سے لے کر علم اور ادب سے وابستہ اداروں تک ہر کہیں بہتری کا بے پناہ کام کرنے والا ہے ۔ ادب کی ترویج کے ذریعے قومی مزاج کو اعتدال پر لایا جاسکتا ہے ۔ اور اگر خلوص نیت سے سوچا جائے تو اس ڈھب پر کو ئی بھی قدم قومی خدمت سے کم نہ ہوگا۔


انیلہ محمود

Post a Comment