آج اُسے مس رچنا بے طرح یاد آ رہی تھی۔ مس رچنا کی سفید پنڈلیوں پر جب پہلی بار اُس کی نظر پڑی تھی تو پھر وہیں ٹھہر گئی تھی اور اُسے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ پنڈلیوں سے اُوپر بھی جسم بلکہ مکمل جسم موجود ہے۔ پھر یہ معمول بن گیا، مس رچنا جب اپنے دفتر کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہوتی یہ اپنے کیبن سے نکل کر اُس کی پنڈلیوں پر نگاہیں جما لیتا۔ روئی کے گالوں جیسی سفید پنڈلیاں تو اس کے اوسان میں پیوست ہو کر رہ گئی تھیں۔ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہمہ وقت ایک وہی تو عکس تھا جواس کے ذہن کے پردے پر منور رہتا۔ تب کہیں اس کا یہ انہماک مس رچنا کی تاک میں آ گیا۔ اگلے روز جب وہ پوری طرح اس عمل میں منہمک تھا تو پنڈلیاں اچانک تھم گئیں ‘ پھر پلٹیں۔ اُسے تب احساس ہوا جب مس رچنا نے اُس کی ٹھوڑی کے نیچے اپنی انگلی ٹکا کر حکم دیا کہ وہ اُس کی طرف دیکھے۔ وہ اتنی جرأت کہاں رکھتا تھا اور اَب تو وہ پوری طرح زمین میں گڑ چکا تھا۔ اُس کی چوری پکڑی گئی تھی اور وہ خود کو دنیا کا غلیظ ترین شخص سمجھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا بھلا مس رچنا کی شفاف پانیوں جیسی پنڈلیاں اس لائق ہیں کہ اُن پر نظروں کا میلا بوجھ رکھا جائے۔

سوچیں دُور کہیں بھٹک رہی تھیں اور دماغ و دل اُس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے، جب وہ کانپنے لگا تو رچنا نے کہا’’ خوف زَدہ ہو! پھر دیکھتے کیوں ہو؟

وہ تو اپنی زندہ لاش کے سرہانے کھڑا تھا۔ لفظ ہوتے تو اُس کا ساتھ دیتے۔ رچنا اُسے اس کی لاش پر روتا ہوا چھوڑ کر سیڑھیاں چڑھ گئی۔ پھر وہ اپنی کیبن سے کبھی نہ نکل سکا۔

ایک روز مس رچنا اچانک اس کے پاس آ گئی۔ ہاتھ میں کافی کا مگ بھی پکڑا ہوا تھا۔ وہ رچنا کو دیکھ کر یوں اُچھل کر اپنی جگہ پر کھڑا ہوا جیسے اسپرنگ کو دبا کر چھوڑ دیا گیا ہو۔ زبان اُس کی اب بھی کچھ کہنے سے قاصر تھی اور نگاہیں اُس کے اپنے ہی جوتوں کو ماپ رہی تھںک۔ تب رچنا نے کہا

’’ دیکھو! زندگی اس کا نام نہیں ، میں نے یہ تو نہیں چاہا تھا کہ تم یوں سہم کر بیٹھ جاؤ۔ میں تو تمھیں صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ دُنیا میں پھیلی ہوئی تمام خوب صورتیاں انسان کے لیے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر شے پر اسے قدرت بھی ہو۔ بس اتنی سی بات ہے۔ تم اچھے ہو، بلکہ بہت اچھے ہو مگر میری پنڈلیاں تمھاری نظروں کی کاٹ نہیں برداشت کر سکتیں ، کیوں کہ وقت بہت پہلے مجھے کسی اور کے حوالے کر چکا ہے اور اَب میں بارہ سال کے بیٹے کی ماں ہوں۔ تم سمجھتے ہو گے میں اس بڈھے جارج موہن کی سیکرٹری کسی مالی ضرورت کے تحت بنی ہوں تو یہ تمھارا مغالطہ ہے۔ میرا شوہر بہت امیر آدمی ہے۔ شہر میں اُس کا بہت بڑا کاروبار ہے اور سیکڑوں لوگ اُس کے ہاں ملازم ہیں۔ میں تو۔۔۔۔۔۔ اچھا چلو چھوڑو۔ تم زندگی سے اپنا حصہ کیوں نہیں لے لیتے ؟جوان ہو، خوب صورت ہو اور پھر قابل بھی۔ ‘‘

وہ مسلسل خاموش تھا اور مس رچنا اُس پر اپنا آپ ظاہر کر کے جا چکی تھی۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کے بازو کندھوں کے جوڑوں سے اُکھڑ کر زمین پر گرنے جا رہے ہوں۔ وہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ ری پیٹر گن اُس کے ہاتھ سے گر کر کیبن کے ایک کونے میں لڑھک گئی اور وہ خود کرسی پر ڈھے گیا۔ ایک معمولی سیکورٹی گارڈ کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے جو کسی کے سامنے لب کشائی کی جرأت کر سکے۔ سکوت کی تہہ اُس کی زندگی پر پڑی تو مسلسل چٹان بنتی گئی اور وہ پتھر ہو گیا۔

بہت دنوں بعد اُسے اپنے زندہ ہونے کا گمان گزرا تو وہ اپنا حصہ ڈھونڈنے کے لیے انسانوں کے ریلے میں بہہ گیا۔ اُس نے بہت کوشش کی کہ وہ اُن پنڈلیوں کو بھول جائے مگر وہ تو جیسے اُس کے دماغ میں اُگی ہوئی تھیں ، کسی کروٹ اُسے چین ہی نہیں لینے دیتی تھیں۔ وہ زندگی سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے بہت لمبا سفر کر آیا تھا۔ اَب وہ سیکورٹی گارڈ چھوٹی سی فرم کا مالک تھا اور ایک خوب صورت سیکرٹری ہر وقت اُس کے سامنے موجود رہتی‘ پورے پکے ہوئے پھل کی طرح۔ وہ جب چاہتا اُسے کھا سکتا تھا۔ اُس کی پنڈلیاں رچنا سے کہیں زیادہ پُر کشش تھیں مگر اُس کے لیے نہیں۔ وہ تو اپنی اس حِس کو پندرہ سال پہلے گروی رکھ آیا تھا۔

وہ صبح اُس کے لیے بہت تحیر خیز اور فرحت آمیز تھی جب عینی نے اُس کے دفتر میں ملازمت کے لیے درخواست دی تھی۔ عینی نے اُس کے سوئے ہوئے جذبات کو جھجھورڑ کر رکھ دیا تھا۔ اُس کی سنہری پنڈلیاں اُسے رچنا سے بھی خوب صورت دکھائی دی تھیں۔ وہ یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے فوراً اُسے ملازمت دے دی۔ وہ چاہتا تھا فوراً ان سارے خوب صورت لمحوں کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لے اور زندگی سے اپنا پورا پورا حصہ وصول کر لے اور پھول کا سارا رس کشید کر لے مگر ہر بار اُس کے اندر موجود بزدل سیکورٹی گارڈ اُس کا راستہ روک لیتا۔ اسی کشمکش میں کئی ماہ گزر گئے اور اُس کا سفر سنہری پنڈلیوں کے طواف تک رہا۔ اُس کی نگاہیں اسی عمل کو مسلسل دہراتے جا رہی تھیں۔ بھونچال تو تب آیا جب عینی نے اپنی شادی کا دعوت نامہ اُس کے سامنے رکھا اور اصرار کیا کہ وہ اُس کی شادی میں ضرور شریک ہو۔ ایک بار پھر اُس کے بازو کام چھوڑ چکے تھے اور وجود پر لرزہ طاری تھا۔ اُس کی نظریں اس کے اپنے ہی جوتوں کو ماپتی تھیں۔ عینی نے اُس کی حالت بگڑنے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا’’ سر! سب خیریت توہے؟‘‘ پھر جلدی سے کانچ کے پیالے میں اُسے ٹھنڈا پانی ڈال کر پلایا۔ لیکن اُس کے من میں روشن ہونے والا الاؤ اُسے جلا کر راکھ کر رہا تھا۔ اُس نے سوچا ہر بار زندگی میں اُسے ہی اپنے حصے کے لیے کیوں تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ وہ بڑبڑایا اور صرف اتنا کہا

’’نہیں ! اَب میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ ‘‘عینی چلی گئی مگر وہ وقت کی بھاری سلوں تلے آ چکا تھا۔ ٹھنڈے پسینے اُسے نڈھال کر رہے تھے۔ پھر اُس نے ایک فیصلہ کیا‘ بزدل سیکورٹی گارڈ کا نہیں بلکہ دلیر عاشق کا۔ کم از کم وہ یہی سمجھتا تھا کہ وہ بہادر ہے اور عشق اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔

اُس کے آدمی عادل کو اُٹھا کر لے آئے تھے اور اُس کے ہاتھ پشت کی جانب بندھے ہوئے تھے۔ نکلتے ہوئے قد کا یہ سانولا سا نو جوان کسی بھی طرح عینی کے لائق نہیں ، پھر عینی اس سے کیوں شادی کرنے جا رہی ہے؟ پھر یہ دو ٹکے کا چھورا عینی کو دے بھی کیا سکتا ہے، جب کہ میں اُسے ہر طرح کی راحت دے سکتا ہوں۔ محل نما بنگلے میں رکھ سکتا ہوں اور پوری محبت کر سکتا ہوں ، پورے کا پورا اُس کا ہو سکتا ہوں۔ اُس نے سوچا۔ پھر اُس نے اپنے کوٹ کی جیب سے پستول نکال کر عادل کی کنپٹی پر رکھ دی اور تلخ لہجے میں کہا ’’چھوڑ دو عینی کو‘‘

’’اوہ۔۔۔ اب سمجھا‘‘ عادل نے نہایت تیزی سے جواب دیا۔ ’’ میں اُسے نہیں چھوڑ سکتا‘ آپ چلائیں گولی‘ اس طرح آپ کا راستہ صاف اور منزل آسان ہو جائے گی۔ ‘‘نوجوان دھن کا پکا تھا۔ اُس سے بھی زیادہ بہادر اور محبت کرنے والا۔ تب اچانک اُسے رچنا کے کہے ہوئے جملے یاد آ گئے۔ اُس کی قوت کا مینار اُس کے اندر ہی گر کر چُور ہو چکا تھا اور وہ پستول کو اپنی جیب میں ڈالنے کے بعد عادل سے مخاطب تھا:

ویل ڈن جوان! میں تمھیں آزما رہا تھا کہ تم عینی کے قابل ہو بھی کہ نہیں ، تم امتحان میں پورے اُترے ہو۔ تمھاری شادی دھوم دھام سے اور میرے اخراجات پر ہو گی۔

پھر عینی سچ مچ عادل کی ہو گئی اور سیکورٹی گارڈ نے اُسے اس طرح بیاہا جیسے کوئی اپنی بیٹی بیاہتا ہے۔

آج اُسے رچنا بے طرح یاد آ رہی تھی اور اُس کی باتیں بھی۔ اُسے لگا کہ وہ اُس کی کیبن میں آ کر اُس کی ٹھوڑی کے نیچے انگلی ٹکائے اُسے اپنی طرف دیکھنے کا حکم دے رہی ہے۔

خاور چودھری

Post a Comment