میری جانب پلٹ کر آتی ہے
نظم، اک دائرہ بناتے ہوئے
راستہ دُور کی زمینوں کا
کون اِس نظم کو دکھائے گا
بادلوں میں گلابی راہ کوئی
آسماں کی طرف بُلاتی ہوئی
جنگلوں میں چھپی لکیر کوئی
بے نشاں بستیوں کو جاتی ہوئی
یا سمندر کی موج موج کے ساتھ
کشتیوں پر کوئی طویل سفر
دور اک اجنبی جزیرے کا
ڈوبتی جا رہی ہو جیسے نظر
خواب کی سرخ جگمگاہٹ کا
دشت میں سوتا جاگتا افسوں
نیند کی پھیلتی سیاہی میں
چند لمبی مسافتوں کے نشاں
جاگتی آنکھ کے دریچے سے
رامش و رنگ کا کوئی منظر
زندگی کی عطائے گونا گوں
اک ہجوم ِخیال ہو، جس کا
کوئی حصہ، خیال ہو جائے
کوئی دریا ہو جس میں قطرے کا
بے حقیقت وجود کھو جائے
اک ہَوا اور اُس کے بعد ہَوا
اِس قدر وسعتیں نگاہ میں ہوں
آسماں کی پَرت کے بعد پَرت
اک خلا اور اُس کے بعد خلا
اِس قدر وحشتیں نگاہ میں ہوں
کوئی رستہ ازل سے چلتا ہوا
اُس سیہ خانۂ ابد تک ہو
جو فنا کا، ثبات کا دل ہے
جو ہے حاصل وجود و واہمے کا
جو ہر اک راہ رَو کی منزل ہے
اُس طرف جائے اور کھو جائے
ایک سیدھی لکیر ہو جائے
بےنیاز ِوفا مگر کب ہے
اس کو اس خاک سے مفر کب ہے
یہ مرے قلب سے گزرتی ہوئی
لوٹ آتی ہے دور جاتے ہوئے
نظم، اک دائرہ بناتے ہوئے

ثمینہ راجہ

Post a Comment