وہ شام بس یوں ہی الجھتی رہی
اور ٹھہرتی رہی
وہ شام کبھی ٹھہر گئی
اونچی، آسمان کو چھوتی
عمارتوں کے مہرابوں پر
اور کبھی
امیر باشندوں کے آشیانوں پر
اور کبھی
عام ادمیوں کے مکانوں پر؛
وہ شام کچھ دیر الجھتی رہی
شہر کے سبربس* اور انکے سناٹوں سے،
پھر کچھ دیر گلتی رہی
ہلکی بارش کی بوچھاروں میں،
پھر بھیگتی سڑک اور اور بھیگتے پارکنگ لاٹ** سے ہوتی ہوئی
اتالوی رستورنٹ کی آراستہ میزوں پر ٹھہر گئی،
اور پھر ٹھہر گئی
بھیگتے جھونکوں کے سرخ رخساروں پر
وہ شام بس یوں ہی ٹھہرتی رہی اور الجھتی رہی؛
وہ شام بڑی عجیب سی تھی
جب تھک کے اس نے انگڑائی لی
تو ایک گنگنے احساس سے الجھی
اور پھر الجھی کسی زلف کی خاموشی سے
اور اس کے بعد تمھارے درد کی داستانوں سے
وہ شام الجھتی گئی تا حد کہ دور کی روشنیوں
اور آدھی رات کے اونگھتے ستاروں الجھ گئی
اور پھر تھک کے ، چور ہو کے سو گئی
اگلی صبح کے انتظار میں
-محمد احسن

Post a Comment