ریحانہ قمر
بیٹھے رہے ہیں سامنے سرکار دیر تک
ہوتا رہا ہے خواب میں دیدار دیر تک
ہے یاد مجھ کو آج بھی وہ شام جب کہ ہم
بیٹھے تھے زیرِ سایۃ اشجار دیر تک
اک بار ہاتھ میرا چُھوا اُس کے ہاتھ سے
بجتے رہے ہیں دل کے مرے تار دیر تک
کہنے کو گرچہ ایک ذرا سی وہ بات تھی
کرتی رہی ہوں خود سے میں تکرار دیر تک
تا دیر میری سانسیں مہکتی رہیں قمر 
آتی رہی ہے پھول کی مہکار دیر تک

Post a Comment