ڈاکٹر سعادت سعید
بارشوں کے موسم میں 
دل کے مرغزاروں میں 
ناگہاں مسرت کی کوکتی ہے خاموشی 
پُرہجوم رستوں کی بھیگی ابتری مجھ کو 
مشکبار لمحوں کی داستاں سناتی ہے 
کوہسار دھلتے ہیں 
سبزہ زار دھلتے ہیں 
آبشار گاتے ہیں اختلاط کے نغمے 
بے لباس پیڑوں کی کپکپاتی بانہوں میں 
ابر پوش مدہوشی سرسراتی رہتی ہے 
شاخسار دھلتے ہیں 
پا کے بند میخانے بادہ خوار رُلتے ہیں 
جب مجھے بھگوتی ہیں 
آئینہ صفت بوندیں 
میری سوئی رعنائی 
جاگ جاگ اٹھتی ہے 
بے نظیر فطرت کے خوشنما گہر ہر سو 
جگمگاتے رہتے ہیں 
حاسدوں کے سب ٹولے 
میری مسکراہٹ پر عرق ریز ہوتے ہیں!
بارشوں کے موسم میں 
چائے خانوں میں اکثر 
دھوم دھام ہوتی ہے 
الجھنوں کے افسوں گر 
نفسیاتی حربوں سے 
بے کلی جگاتے ہیں 
عیش کام پریوں کو 
آئینے دکھاتے ہیں 
خوفِ عاقبت کے دیو 
خوش خرام گھڑیوں کو 
انتباہ کرتے ہیں 
انبساط ِپیہم کو 
داد خواہ کرتے ہیں

Post a Comment