افتخار شفیع
اتنے برسوں کے بعد آئے تم
اب بھی لگتے نہیں پرائے تم
ایک ملبوس کے بدلنے سے
کتنے رنگوں میں جھلملائے تم
بنسری بج رہی تھی دور کہیں
رات کس درجہ یاد آئے تم

دل کو اک ضرب یاد ہے اب بھی
کتنے اچھے لگے تھے ہائے! تم
ایک شاخِ یمینِ گُل کے لئے
کن درختوں پہ چہچہائے تم
کچھ تو ہم بھی کسی گمان میں تھے
اور کچھ یاد بھی نہ آئے تم
رات مجلس میں ایک رونق تھی
آ رہے تھے سجے سجائے تم

Post a Comment