عرفان صادق  کی کتاب ،، میں آنکھیں بھول آیا ہوں کی 
تقریب رونمائی الحمرا ادبی بیٹھک میں بزم چغتائی نے نےمنعقد کروائی جسے سالوں  یاد رکھا جائے گا۔شاعر،ادیب نقاد دانشور سب ہی ادبی بیٹھک میں موجود تھے  دوستوں کے دل میں عرفان صادق کی شخصیت اور شاعری کی    محبت ہے ،ادبا کا الحمرا ادبی بیٹھک میں جمَ غفیر اس بات کا ثبوت تھا
اس پروقار تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جو ۔خواجہ عاصم نے کی۔


پھر مجید چٹھہ صاحب نے عرفان صادق کی نعت پڑھی
چمکتی ہیں میری سوچیں اسی کے ہالے سے 
مجھے جو نسبتیں ہیں احمدی اجالے سے
تقریب کی نظامت محترمہ صوفیہ بیدار کر رہی تھیں جو علمی ادبی افق پہ دمکتا ستارہ ہیں باوقار اور مجسم فہم و فراست ۔
استاد سجاد بری نے عرفان صادق کی خوبصورت غزل گا کر محفل کو چار چاند لگا دئیے 
وہ میری یاد دہانی میں نہیں بھی ہوتا
دل کبھی اپنی روانی میں نہیں بھی ہوتا

،صدرِ نشت ڈاکٹر خورشید رضوی نے عرفان صادق کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا

میں تقریبآ بیس پچیس سال سے دیکھ رہا ہوں عرفان صادق اپنی شاعری کے ساتھ پوری طرح کمیٹڈ ہے۔اس کا سفر ایک لمحہ بھی رکا یا الجھا نہیں وہ ایک جینوئن شاعر ہے۔اور جب وہ کہتا ہے۔
"میری آواز جدا رہتی ہے آوازوں سےِِ" تو مجھے اس مصرعے پہ پوری دیانتداری چھلکتی نظر آتی ہے۔عرفان صادق نے چہروں کے اس ہجوم میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے جو کار آسان ہرگز نہیں۔



  ڈاکٹر خواجہ زکریا نے کہا 

عرفان صادق کلاسیکی شاعری سے پوری طرح جڑے ہونے کے باوجود جدید شاعر ہے۔میر کا ذکر ان کی شاعری میں بار بار آیا ہے لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ میر کے دور کا کوئی شاعر "میں آنکھیں بھول آیا ہوں جیسا جملہ تخلیق نہیں کر سکا۔جب بھی کوئی نیا شاعر مجھے اپنا مجموعہ کلام پڑھنے کو دیتا ہے تو میں سب سے پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ یہ شاعر ہے کہ نہیں۔عرفان صادق کا مجموعہ پڑھ کر مجھ پہ کھلا کہ عرفان ایک مکمل شاعر ہے۔
عرفان صادق نے صاحب صدر جناب خورشید رضوی اور ڈاکٹر خواجہ زکریا صاحب سے پہلے اپنا کلام سنایا۔دوستوں کا فردآ فردآ شکریہ ادا کیا جو ان کے لئے پھولوں کے تحائف لائے اور منظوم کلام پیش کرنے والے دوستوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔

حسن عسکری کاظمی نے کہا

شاعری کی روایت کے مطابق غزل سے شاعر کی پہچان ہوتی ہے کہ شاعر حساب کتاب سے شاعری کر رہا ہے تک بندی،ردیف قافیہ نبھا رہا ہے اس کی غزل کے زیادہ اشعار بھرتی کے اشعار ہیں یا وہ صاحب اسلوب ہے اور عرفان کی غزل بہت مضبوط جھرنوں کی طرح لچکتی بل کھاتی اور زیادہ تر اشعار معیاری درجہ کے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا
عرفان صادق کا یہ مجموعہ بڑا عجیب غریب ہے بندہ عینک بھولتا ہے،دل بھولتا ہے ،جسم و جاں کہیں چھوڑ آیا کہہ سکتا ہے لیکن یہ آ نکھیں بھول آنا دل کو اچھا لگا۔کوئی درمیانی سوچ کا بندہ یہ نام سوچ بھی نہیں سکتا۔سارا کلام زندہ ہے ،روشن ہے چراغ جلتے ہیں پرندے پھڑ پھڑا رہے ہیں۔یہ کلام عرفان صادق کا نام روشن رکھے گا مٹنے نہیں دے گا۔

اعتبار ساجد نے کہا

عرفان صادق نے شاعری کووقار بخشا ہے۔یہ اس کے خلوص کا اعجاز ہے کہ شہر کا شہر یہاں جمع ہے۔میں جب لاہور آیا تو سب سے پہلے عرفان نے میرے اعزاز میں تقریب رکھی۔یہ عزت دیتا ہے اس لئے عزت اس کے حصے میں آتی ہے ۔شاعری کمال ہے۔جو شعر پڑھیں دل کو بھاتا ہے۔

ڈاکٹر طارق عزیز نے کہا

میں جو دوستوں کا سمندر دیکھ رہا ہوں اور عرفان صادق کے بارے میں باقاعدہ اور مستند ادیبوں شاعروں کی رائے سن رہا ہوں وہ یقینی طور پہ درست ہے میں کتاب سے شعر منتخب کرنے لگا تو یہ دیکھئے بے شمار اشعار ہیں جنہوں نے مجھے نشان لگانے پہ مجبور کیا۔ خوبصورت اشعارکی کثرت ہے۔

حسین مجروح نے کہا

میں جب بھی کوئی مجموعہ دیکھتا ہون تو اپنے خاص انداز سے اسے پڑھتا ہوں غور سے اور ہر اینگل سے۔عرفان اس خوبصورتی سے تشبیحات اور استعارات کا استعمال کرتا ہے 
کہ شعر میں جدت آ جاتی ہے اور عرفان کے ہاں کئی شعر ایسے ہیں جن میں اردو شاعری کی ایکسٹینشن ہے۔جو میں نے اس سے پہلے نہیں پڑھے اور اب پڑھ کے بھلے لگے۔

سلمٰی اعوان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا

عرفان بہت پیارا انسان ہے خلوص اور محبت سے بھرا لہجہ ادب سے معمور۔میں شاعری کے بارے میں کم ہی بات کرتی ہوں لیکن یہ کتاب مجھے عرفان اور ثمینہ سید دے کے آئے کہا آپ نے کچھ لکھنا ہے ۔میں نے ساری کتاب پڑھی سچ پوچھیں تو کتاب نے خود مجھ سے پڑھوایا اپنا آپ ۔ایسے عمدہ شعر،اتنی عقل ،سمجھ ،محبت اور حالات کی ستم ظریفیاں کہ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ یہ ایک اچھا شاعر ہے اچھا انسان ہے یہ کم تو نہیں۔

حمیدہ شاہین نے کہا

عرفان صادق کا مجموعہ کلام پڑھتے ہوئے میں ادراک کی کئی منزلوں سے گزری۔ایسا فہم ایسی لفاظی اور اسلوب شاندار سب سے بڑھ کر اشعار میں جو موسیقیت اور غنائیت ہے اس نے مجھے خوشی دی کہ شاعری کا اصل مفہوم واضع ہوا۔اشعار بولتے ہیں جیتے ہیں ،سانس لیتے ہیں،ہنستے بولتے اور محبت رقم کرتے ہیں ۔پرندوں کا ذکر جگہ جگہ ہے،چراغ ہوا اور دئیے سے عرفان کی شاعری کا خاص رشتہ ہے۔

غافر شہزاد نے کہا

عرفان کے زندگی گزارنے میں جو سلجھاؤ ہے وہ اکثر شعراء میں نہیں ہوتا وہ جو کام کرتا ہے اسے پرفیکشن سے کرنا چاہتا ہے۔کام ہو یا شاعری،محبت ہو یا ادبی تقریبات کا انعقاد ،چینلز پر بھی مشاعرے کرانا۔اور پھر اس ساری بھاگ دوڑ میں شاعری ،اپنا بزنس اور دوسرے معاملات میں توازن رکھنا عرفان کی شخصیت کا خاصہ ہے ۔متعدد اشعار ہیں جن میں روشنی ہوا چراغ ،منڈیر ،دیا پرندے کا ذکر ہے عرفان کا تعلق مضافات سے ہے آج بھی اس کے اندر یہ خالص پن ہے۔
اس کے علاوہ جاوید قاسم اور جناب علی رضا کاظمی صاحب نے منظوم ستائشی کلام پیش کیا۔ یہ جاندار محفل یقینی طور پہ مدت تک یاد رکھی جائے گی۔

رپورٹ۔ ثمینہ سید 

Post a Comment