واجد امیر
تو کیا عجب کہ ہم ایسے بھی خوار ہونے لگے
بھلے بھلے یہاں رزقِ غبار ہونے لگے
ابھی تو رات کا پہلا پہر نہیں گزرا
ابھی سے دن کے لیے بے قرار ہونے لگے
خدا کا نام لینا بھی جنھیں گوارا نہیں
خدا کی شان وہی تاجدار ہونے لگے
تلاشِ رزق یہ کن راستوں پہ لے آئی
ایک ایک کر کے جدا سارے یار ہونے لگے
تجھے بھی چاہیے دل جوئی ان کی تھوڑی سی
نثار تجھ پہ جو پروانہ وار ہونے لگے
گزرنے لگتی ہیں کترا کے گردشیں اُن سے
ترے اسیروں میں جن کا شمار ہونے لگے
چھپا لیا ہے گھٹاؤں نے مل کے سورج کو
ہوا کی رتھ پہ اندھیرے سوار ہونے لگے
مری تو اپنے مسائل سے جنگ ہے واجد
مری بلا سے کوئی شہریار ہونے لگے

Post a Comment