علی رضا خان
کب کسی بد گماں سے ڈرتے ہیں
مگر اس مہرباں سے ڈرتے ہیں
ایک لمحے کابهی زیاں ہے بہت
اور ہم اس زیاں سے ڈرتے ہیں
دهوپ کے سائباں میں رہتے ہوئے
سایہء سائباں سے ڈرتے ہیں
آب و آتش کا اعتبار ہی کیا
اپنے ہی جسم و جاں سے ڈرتے ہیں
کہیں اپنی نظر ٹهہرتی نہیں
وسعت بے کراں سے ڈرتے ہیں
جس میں ہونے کا ڈر نکل آئے
ایسے کنج اماں سے ڈرتے ہیں
پاوءں جن کے زمیں پہ ٹکتے نہیں
کیوں وه مجهہ خاک داں سے ڈرتے ہیں
ہم زمیں کے حصار میں رہ کر
جانے کیوں آسماں سے ڈرتے ہیں

Post a Comment