تحصیلِ علم کے لئے پوچھا گیا،، لوح ،، کیا ہے۔
 جواب ملا،اوراق کا ایک مجموعہ جس میں ادب کی ہر صنف پر اللہ کی احسن طریق پر تخلیق شدہ مخلوق کی تخلیقات درج ہیں۔اوراق کے اس مجموعے کو رسالہ کہتے ہیں۔
پوچھا گیا کہ یہ رسالہ کیسا ہے؟
 جواب ملا،، منفرد،خوبصورت،دیدہ زیب،شاندار،ادبی روایات کا امین،،
پوچھا گیا کہ یہ رسالہ کہاں سے چھپتا ہے؟
 جواب ملا راولپنڈی سے۔
پوچھا گیا کہ اس کے مدیر کون ہیں؟
 جواب ملا،وہی ادب کے دلدادہ،ادب کے خادم،ممتاز احمد شیخ


پوچھا گیا کیا راولپنڈی سے پہلے بھی ایسے جرائد چھپتے رہے ہیں؟
جواب ملا، جی ہاں تقسیم سے پہلے اور کچھ عرصے بعد پہاں سے شائع ہونے وا؛ا ادبی جریدہ،،ماحول،، تھا۔لیکن جدید طرزکا پرچہ،، بادبان،، تھا،پھر دستاویز تھا،پھر،،آثار نے اچھا آغاز کیا،نصیر احمد ناصر کا تسطیر،علی محمد فرشی کا سمبل،اگر لوح کی طرز کے جرائد کو ملکی سطح پر دیکھا جائے تو اس طرز کے چند ہی جرائد نظر آتے ہیں جن میں نیرنگِ خیال،نقوش  اور فنون کے نام لئے جا سکتے ہیں۔راولپنڈی سے جو جرائد شائع ہوتے رہے وہ چند اشاعتوں کے بعد اپنی اشاعت جاری نا رکھ سکے۔
پوچھا گیا ممتاز احمد شیخ سے اس وقت جب انہوں نے لوح کے پہلے شمارے کا اعلان کیا کہ کیا مہنگائی کے اس دور میں  لوح کی اشاعت جاری رکھ سکیں گے؟
جواب ملا،انشااللہ،

پھر پہلا شمارہ آیا اور ادبی حلقوں میں چھا گیا۔ایک جانب بہت مثبت ردِ عمل سامنے آیا تو دوسری جانب کہا گیا ادبی رسالہ سراسر خسارے کا سودا ہے،ایک شمارہ تو ممتاز شیخ نے نکال لیا،کڑاھی کا ابال ختم ہونے دو پھر دیکھتے ہیں۔
پہلے شمارے کی اشاعت کے فوراََ بعد ممتاز شیخ صاحب نے دوسرے شمارے کے لئے مسودات مانگ لئے۔اور لوح کا نقشِ ثانی مثلِ حسنِ یوسف ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ممتاز شیخ ادبی حلقں کا جانا پہچانا  اور معتبر نام ہے۔ان کے ذھن میں ایک معیاری ادبی جریدے  کا تصور تو پہلے سے ہی جسم و جاں میں راسخ تھا جسے مجسم  لوح کی شکل میں کیا ہے،یہ جسامت اپنے دامن میں ہمہ رنگ ادبی مواد  مہیا کر رہی ہے۔چھ سو چوالیس صفحات کا یہ جریدہ  ایک طلسمِ ہوش ربا ہے،پڑھتے جائیے اور سحر میں ڈوبتے جائیے۔
پوچھا گیا ممتاز احمد شیخ سے کہ یہ کیا سوجھی؟
جواب ملا،،کارِ دنیا و ادب میں بٹا اور بکھرا ہوا آدمی جو بے سروسامان بھی اور جس کے سر پر ادب کا سائبان بھی موجود نہ تھا۔نا کبھی ادب کی ہانک لگائی نا ادبی ٹھیلہ لے کر گلی گلی کوچہ کوچہ ادبی مزدوری کرنے کی خواہش ابھری۔تو میں سوچتا ہوں کہ،، لوح،،  کا معرضِ  وجود میں آنا کسی معجزے سے کم نہیں۔یہ محض خدائے بزرگ و برتر کی دی ہوئی تحریک اور قوت تھی کہ وہ دلوں میں حرف و لفظ سے محبت کی ارزانی عطا فرما دیتا ہے اور تخلیقی اور تجریدی خاکے وجود میں آتے ہیں۔یہ بھی ایک دھمال رنگ تجریدی مگر فرضی سا خاکہ تھا جو برسوں سے میرے دل کے نہاں خانے میں نمو پا رہا تھا۔یہ تو عشق و عاشقی کا قصہ ہے میی ادب سے تھوڑی بہت جتنی بھی وابستگی اورمحبت ہے اس میں،نیت میں کسی کھوٹ کا کوئی تصور موجود نہیں۔راستے واضح اور متعین ہوں تو منزل عشق کی طرف گام بہ  گام،قدم بہ قدم چلتے رہنا بہت دشوار نہیں رہتاجذبوں کا صادق ہونا شرطِ اولین ہے۔
 پوچھا گیا لوح  میں کیا ہے جو اسے منفرد جریدہ  بناتا ہے؟
جواب ملا،لوح، لفظوں کی بچھی ہوئی بساط ہے اور یہ کوئی تن آسانی کا کام نہیں تھا کہ جو چیز ہاتھ آئی قرطاسِ ابیض پر بکھیر دی۔اس بساط پر بچھنے والی ہر ہر تحریر کو موتیوں کی مالا سمجھ کر کسی ماہر جوہری کی طرح جانچا اور پرکھا گیا۔شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو میں حمدیہ کلام ہے۔جس کے حصہ دار ہیں،سلیم کوثر،نسیم سحر،پروین طاہر،نورین طلعت عروبہ اور حجاب عباسی۔کرم اے شہِ عرب و عجم کے تحت افتخار عارف،توصیف تبسم،احسان اکبراور سید انور جاوید ہاشمی مدح سرا ہیں۔
محبت جو امر ہوگئی کے عنوان تلے  مادرِ علمی کے لئے محبتیں جمع کی ہیں۔اس کے علاؤہ تکریمِ رفتگاں اجالتی ہے کوچہ و قریہ میں نصیر احمد ناصر نے عبداللہ حسین کو یاد کیا ہے،ڈاکٹر نزہت عباسی نے،،غزالاں تم تو واقف ہو میں ادا جعفری کو یا کیا ہے ساتھ ہی ادا جعفری کی چند غزلیں بھی شامل ہیں۔
پوچھا گیا اس کے علاوہ کیا جمع کیا ہے لوح میں؟ 
جواب ملا،یاد آتے ہیں زمانے کیا کیا میں خود نوشت کا ایک باب تحریر کیا ہے محمد اظہارالحق نے۔ساتھ ہی ہزار قصے سفر میں ملتے ہیں کے عنوان تلے سلمیٰ اعوان نے اپنے تاثرات تحریر کیئے ہیں۔سن تو سہی جہاں میں ہے ترا فسانہ کیا میں 18افسانے پیش کئے ہیں جن میں اسد محمد خان،رشید امجد،سمیع آہوجا۔اے خیام،ابدال بیلا، محمدالیاس،طاہرہ اقبال،محمد حامد سراج،غافر شہزاد،امجد طفیل،خالد فتح محمد،زین سالک،ڈاکٹر انور نسیم،محمد عاصم بٹ،سیمیں کرن،شائستہ فاخری،رابعہالربا اور سبین جسے لکھاریوں کے افسانے شامل ہیں۔
نظم لکھے تجھے ایسے کہ زمانے واہوں،لوح کا یہ حصہ نظموں پر مشتمل
ہے جسے آفتاب اقبال شمیم،کشور ناہید،افتخار عارف،توصیفتبسم،سرمد صہبائی،امجد اسلام امجد،نصیر احمد ناصر،ابرار احمد،ایوب خاور،سعادت سعید،علی فرشی،فرخ یار،سجاد بابر،مقصود وفا،جواز جعفری،سعود عثمانی،اقتدار جاوید،پروین طاہر۔احمد حسین مجاہد،نجیبہ عارف،حسین عابد،ارشد معراج،ثاقب ندیم،منیر فیاض،فہیم شناس کاظمی، رخشندہ نوید،جبار واصف،مصطفی ارباب،ناہید قمر،سعید احمد،الیاس بابر اعوان،شکیلہ شام،فاخرہ نورین،احمد شہر یار،حجاب عباسی،اشرف یوسفی،ثمینہ تبسم،طاہرہ غزل،اکرام بسرا،شازیہ مجید، سرمد سروش،ناز نٹ،بشریٰ سعید،منیر احمد فردوس،ناہید عزمیاور عاصمہ طاہرکی نظموں سے سجایا ہے،
 پوچھا گیااسی مناسبت سے غزلوں کا حصہ بھی ضخیم ہوگا؟ 
جواب ملا،غزل کے میدان میں بھی نئے ناموں کے علاؤہ پرانے لکھنے والے بھی شامل ہیں جیسے ظفراقبال،توصیف تبسم،سحر انصاری،افتخار عارف،سید نصرت زیدی،احسان اکبر،انور شعور،روحی کنجاہی،سرمد صہبائی،محمد اظہارالحق،محمود شام،امجد اسلام امجد،سجاد باہر،نثار ناسک،صابر ظفر،سلطان رشک،ایوب خاور،سلیم کوثر،خالد اقبال 

یاسر،اعتبار ساجد،لیاقت علی عاصم،سید انور جاوید ہاشمی،صغیر احمد جعفری،حمیدہ شاہین،نسیم سحر،اختر شمار،محمد سلیم طاہر،حسن عباس رضا،سعود عثمانی،قمر رضا زہزاد،اسلم گورداسپوری،اجمل سراج،جاوید احمد،ممتاز اطہر،سلمان باسط،مقصود وفا،احمد حسین مجاہد، افضال نوید،محبوب ظفر،شاہین عباس،ظفر علی راجا،زاہد شمسی،فاضل جمیلی،نجیبہ عارف،اشرف سلیم،شکیل جازب،خالد علیم،نرجس افروز زیدی،رضیہ سبحان،محمد ندیم بھابھہ،نشاط سرحدی،نصرت مسعود،اختر رضا سلیمی،حسام حر،افتخار حیدر،تیمور حسن تیمور،ثمینہ یاسمین،،جبار واصف، جنید آذر،شائستہ،حمیرا راحت،نزہت عباسی،کاشف حسین غائر،حماد نیازی،اوصاف شیخ،احمد خیال،شمشیر حیدر،سجاد بلوچ،فیضی،شگفتہ شفیق،اطہر جعفری،ذوالفقار نقوی،ناز نٹ،عاصمہ طاہر،ثبین سیف،سحر حسن،امر مہکی،سائمن ڈیوڈ ضیااور شائستہ سحر،یہ سب آج کے دور کے لوگ ہیں جن کا نیا رنگ،آہنگ اور نیا لہجہ احساس دلا رہا ہے کہ ہمیں  پڑھوہمارا استقبال کرو۔
پوچھا گیا کہ نظم اور غزل کا حصہ  کچھ زیادہ نہیں ہو گیا؟
 جواب ملا،نہیں کوشش یہ رہی ہے کہ نثر اور شاعری کا تناسب برابر رہے،دیکھئیے،18افسانے ہیں،14مضامین ہیں،جنہیں لکھنے والے ڈاکٹر معین الدن عقیل،ڈاکٹر رؤف پاریکھ،عکسی مفتی،ڈاکٹر ناصر عباس نیر،ڈاکٹر اختر شمار،ڈاکٹر اجے مالوی،ڈاکٹر محمد آصف اعوان،ڈاکٹر عابد سیال،ڈاکٹر ناہید قمر،ڈاکٹر عبدالواحد تبسم،ڈاکٹررابعہ سرفراز،سید کامران عباس کاظمی،ڈاکٹر رحمت علی شاد،ڈاکٹر شہاب ظفراعظی ہیں۔اس کے علاوہ نجیبہ عارف کے ناول گرد کے بگولے کی دوسری قسط کے علاوہ تراجم کا حصہ،ڈاکٹر امجد پرویز کا ملکہ ترنم نور جہاں پر مضمون،ایک خاکہ،جسے سلیمان باسط نے لکھا۔
آپ میرے اس کالم سے بور تو نہیں ہو گئے؟
ہم نے ممتاز احمد شیخ سے تو بہت کچھ پوچھ لیا،لیکن یہ تو ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی ہیں جو کہہ رہے ہیں آپ بور تو نہیں  ہو گئے؟ اس کے علاوہ ایک اعلان ہے جو ڈاکٹر صابر بدر جعفری کر رہے ہیں۔ادریس شاہجہانپوری نے لکھا ہے،،دلیری اور دیدہ دلیری،جسے ممتازشیخ صاحب نے مزاح کے زمرے میں شامل کیا ہے۔
لوح،ممتاز شیخ کے تصورات کی حقیقی تشکیل ہے،افسانوں کی ایک کتاب 8سے 10افسانوں پر مشتمل ہوتی ہے یہاں تو دو کتابوں کا مواد یکجا کر دیا گیا گیا ہے۔اس میں مضامین کی بھی ایک کتاب موجود ہے،ساتھ ہی ساتھ نظم و غزل کی بھی کم از کم ایک ایک کتاب موجود ہے،اس لحاظ سے پانچ کتابوں  جتنے مواد پر مشتمل اس شمارے کی قیمت صرف پانچ سو روپے رکھی گئی ہے۔

1 تبصرے

  1. آداب!
    مثل "آفتاب آمد دلیل آفتاب" خوب تعارف هے
    تخلیقات کی تفصیل نے جی پر وجد طاری کر دیا
    آنکهیں کسی ماہ رو کے انتظار جیسی کیفیات کا شکار ہیں
    نفسانفسی و گرانی کے اس دور میں ایسا کر گذرنا کار فرهاد کا کرنا هے ....
    اجرکم من اللہ
    الہی !
    " لوح "کو دوام اور قبولیت عوام عطا فرمائیو ..... آمین
    خیر اندیش
    ڈاکٹر قمر صدیقی

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں