میسی اور دوسرے سٹورز


ہمیں امریکہ آئے پندرہ دن ہو گئے تھے۔عدیل آفس چلا جاتا تھا اور ہم اس کی واپسی تک گھر پر ہی ہوتے تھے زیادہ سے زیادہ ڈاؤن ٹاؤن کا چکر لگا آتے تھے۔عدیل کا آفس چونکہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا اس لئے وہ پیدل چلا جاتا تھا۔گاڑی گھر پر ہی ہوتی تھی۔رات کے کھانے پر عدیل نے رابعہ سے کہا کہ تم امی پاپا کو گھمانے لے جایا کرو۔
رابعہ نے کہا،،امی ابو آپ تیار رہیئے گا کل گھومنے چلیں گے۔
صبح میں جلدی اٹھ گیا،دیکھا تو بیگم صاحبہ نماز پڑھنے میں مصروف تھیں،اوہ،میں نے اٹھ کر کھڑکی کا کرٹن ہٹا کر باہر دیکھا،فجر کا وقت ہو گیا تھا،باہر کے موسم سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا،شاید آئی پیڈ پر وہاں کے وقت کے مطابق آذان ہوگئی تھی۔میں نے بھی نماز پڑھنے کا سوچا اور باتھ روم میں چلا گیا،ناشتے کے بعد عدیل آفس چلا گیا۔آج ہمارا رابعہ کے ساتھ باہر جانے کا پروگرام تھا۔
،،آج میں آپ کو دو سٹوروں پر لے جاؤں گی،،
رابعہ نے کہا
،،ٹھیک ہے،،
میں نے عنایہ سے کھیلتے ہوئے کہا
،،پھر حلال سٹور بھی چلیں گے،گوشت اور چکن لانا ہے،عدیل واپسی پر روز لانا بھول جاتے ہیں،،
رابعہ نے پھر کہا
،،یہ حلال سٹور کیا ہے،،
میں نے پوچھا
،،ابو یہ دراصل کراچی کے دو بھائیوں کا سٹور ہے،تھوڑے فاصلے پر ہے،ایک تو وہاں سے ہمارے دیسی مصالحہ جات مل جاتے ہیں،دوسرے حلال مٹن اور چکن مل جاتا ہے۔اسی مناسبت سے انہوں نے سٹور کا نام حلال سٹور رکھا ہے۔یہاں دور دور رہنے والے مسلمان مہینے بھر کی گروسرییہاں سے لے جاتے ہیں،میں بھی گوشت مرغی اسی سٹور سے لاتی ہوں،،
رابعہ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا
یہاں امریکہ میں یہودی بھی بڑی تعداد میں ہیں۔یہودی حلال گوشت کھاتے ہیں،جسے کوشر کہتے ہیں۔مچھلی تو مارکیٹ سے عام مل جاتی ہے۔یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
،،چلو حرام حلال کا مسئلہ تو حل ہوا ورنہ مشکل ہو جاتی،،
میں نے ہنس کر کہا
امریکی سور کا گوشت کھاتے ہیں جسے پورک کہتے ہیں،بھینس اور بکرے کا گوشت کم ہی استعمال کرتے ہیں۔مارکیٹ میں گوشت کی دکانوں پر پورک عام پڑا ہوتا ہے۔بھینس اور بکرے کا گوشت ہو بھی تو حلال نہیں ہوتا جھٹکے کا ہوتا ہے کیونکہ ان میں ہماری طرح حلال حرام کا کوئی تصور نہیں ہے۔اس لئے مسلمانوں کو محتاط  ہونا پڑتا ہے۔اور اب حلال گوشت کی مسلمانوں کی دکانیں کھل جانے سے لوگوں کو کچھ سکون ہو گیا ہیکہ انہیں حلال گوشت مل جاتا ہے۔
میں نے رابعہ سے کہاکہ حلال سٹور تو جانا ہی ہے،موٹا کٹا ہوا قیمہ بھی لے لیں گے۔رابعہ کہنے لگی
،،ابو یہاں ایسے نہیں ملتا،وہ لوگ کہتے ہیں قیمہ کے لئے پوری ران لیں پھر قیمہ بنا کر دیں گے،،
میں نے کہا
،،تو ٹیلی فون پر کہہ دو،جب دوسرے سٹور جہاں تم لے جارہی ہو،وہاں گھوم لیں گے تو واپسی پر قیمہ لے لیں گے،،
رابعہ نے ٹیلی فون پر قیمے کا کہہ دیااور میری فرمائش پر اسے یہ بھی کہہ دیا کہ موٹے قیمے والے بلیڈ لگا کر قیمہ بنایئے۔آج نجانے کیوں کھڑے مصالحے کا قیمہ کھانے کا دل کر رہا تھا۔شاید پاکستان یاد آ رہا تھا۔
گاڑی اپارٹمنٹس کے نیچے پارکنگ ایریا میں کھڑی تھی لفٹ نے ہمیں نیچے پارکنگ ایریا میں پہنچا دیا۔
ہم باتیں کرتے ہوئے گاڑی کے پاس آگئے۔رابعہ نے گاڑی کھولی،پچھلی سیٹ پر نصب بے بی سیٹ پر عنایہ کو بٹھایا پھر اس کی سیٹ بیلٹ باندھی،اس کے ساتھ والی سیٹ پر اس کی دادی بیٹھ گئیں۔پھر رابعہ ڈرائیونگ سیٹ پر آن بیٹھی۔دوسری طرف کا دروازہ میرے لئے کھول دیا،میں بھی سیٹ پر بیٹھ گیا۔رابعہ اپنی سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے میری طرف دیکھ کر بولی
،،ابو سیٹ بیلٹ باندھ لیں،،
،،کیوں؟تم نے باندھ تو لی ہے،کیا ضروری ہے، میں بھی بیلٹ باندھوں،پاکستان میں تو نہیں باندھتے،،
میں نے کہا
،،ابو،آپ امریکہ میں ہیں،پاکستان میں نہیں۔یہاں بیلٹ باندھنا قانوناََ ضروری ہے،،
رابعہ نے وہی سبق دھرایا جو عدیل نے ائیرپورٹ پر ہمیں ریسو کر کے گھر لاتے ہوئے ہمیں پڑھایا تھا۔
،،یہ ٹوں ٹوں کی آواز کیوں آ رہی ہے گاڑی میں سے،،
میں نے رابعہ سے پوچھا
،،اس لئے کہ آپ نے ابھی تک بیلٹ نہیں باندھی،گاڑی میں جو سسٹم نصب ہے،وہ یاد دھانی کراتا ہے کہ بیلٹ پہن لیں،،
رابعہ نے ہنس کر کہا
میں نے کندھے کے اوپرسے بیلٹ لا کر سینے کے اوپر سے لے جا کر اس کا ہک لگا دیا اور گاڑی میں سے ابھرنے والی ٹوں ٹوں کی آواز بند ہو گئی اور ڈیش بورڈ پر بلنک کرتا سرخ نشان بھی بجھ گیا۔
،،یاد رکھیں جب بھی گاڑی میں بیٹھیں،یہ بیلٹ لگانا ضروری ہو گا،،
،،اچھا اچھا ٹھیک ہے،،
رابعہ نے گاڑی سٹارٹ کی، پارکنگ لاٹ سے نکالی۔یہ ٹوون ٹاور کا پارکنگ ایریا تھا جہاں پر ہر فلیٹ کے مکینوں کو جگہ مخصوص ر دی گئی تھی۔اس وقت ایک دو گاڑیاں ہی کھڑی تھیں کیونکہ لوگ اپنے اپنے کام اور اپنی اپنی نوکریوں پر جا چکے تھے۔ وقت کی پابندی یہاں لازمی امر ہے اور لوگ اس کی پاسداری کرتے ہیں۔
عدیل کا فلیٹ چونکہ ڈاؤن ٹاون کی میں سڑک پر واقع ہے اورنزدیک ہی فائر بریگیڈ کا آفس ہے اس لئے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ہر وقت شور مچاتی ہوئی گذرتی ہیں۔
ہم سڑک پر آگئے،بائیں جانب سے گھوم کر ہم مین سڑک پر آئے،سڑک کے دونوں طرف عمارتیں، کناروں پر چلنے کے لئے اینٹوں کے بنے خاصے چوڑے فٹ پاتھ،ترتیب سے بنے صاف ستھرے اپارٹمنٹس بڑے خوبصورت لگ رہے تھے،سڑکیں صاف ستھری جیسے دھلی ہوئی ہوں،فضا صاف شفاف،دھول نا مٹی،نا گاڑیوں کا دھواں اور نا ہی ہارنوں کی بے ربط آوازیں حالانکہ بیشمار گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔
چھوٹی سڑکیں پار کر کے رابعہ ہائی وے پر آ گئی۔وہ ہمیں امریکہ کے مشہور سٹور میسی پر لے جا رہی تھی۔میسی سٹور،ویٹن مال میں واقع ہے جہاں کئی اور سٹور بھی ہیں۔

رابعہ نے گاڑی میسی کے سامنے ایک وسیع و عریض پارکنگ لاٹ میں لا کھڑی  کی۔میں گاڑی سے باہر نکل کر اس پارکنگ پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔صاف ستھرا پارکنگ لاٹ جہاں زمین پر سفید رنگ سے لائینیں بنی ہوئی تھیں۔دو لائینوں کے درمیان گاڑی کھڑی کرنا ہوتی ہے۔بے ترتیبی سے کوئی گاڑی کھڑی نہیں کر سکتا۔ہر کوئی سفید لائنوں کے درمیان چھوڑی جگہ پر گاڑی پارک کرنے کا پابند ہوتا ہے۔سٹوروں کے سامنے معذوروں کی گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ مخصوص ہوتی ہے وہاں صرف معذور لوگ جن کے پاس باقاعدہ سرٹیفیکیٹ ہو گاڑی کھڑی کر سکتے ہیں۔میں نے یہ بھی دیکھا کہ دور دور تک کہیں کوئی کاغذ کا ٹکڑا تک نظر نہیں آ رہا تھا،کہیں پاؤں سے مسلی ہوئی کوئی سگریٹ نہیں تھی،کوئی پھل،کوئیچھلکا،کوئی لفافہ،کسی چاکلیٹ کی ریپنگ،کچھ بھی نا تھا۔کہیں پھٹے ہوئے اخبار کے ٹکڑے نا تھے،کوئی مومی لفافہ ہوا سے ادھر سے ادھراڑ نہیں رہا تھا،کوئی کوک کا ٹن پیروں کی ٹھوکروں میں نہیں آ رہا تھا،کوئی جوس کا خالی ڈبہ پڑا دکھائی دے رہا تھا۔
معذوروں کی گاڑیون کے لئے مخصوص جگہیں اکثر خالی نظر آرہی تھیں کیونکہ یہاں کسی بھی حال میں عام آدمی گاڑی کھڑی نہیں کرتا چاہے پاکنگ لاٹ میں کتنا ہی رش کیوں نا ہو۔
میں وہاں کھڑا سوچ رہا تھاکہ ہمارے ملک میں ایسی بات کیوں نہیں ہے،گاڑیاں جہاں بھی کھڑی کی جاتی ہیں۔بے ترتیبی  سے کوئی آگے کھڑی کر دیتا ہے کوئی پیچھے۔بعض اوقات تو ایسے گاڑی کھڑی کی جاتی ہے کہ گاڑی نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ان گاڑیوں کے مالکان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ ان کی وجہ سے دوسروں کو کتنی تکلیف ہو رہی ہے۔
یہاں امریکہ میں کیا خوبصورت نظام ہے۔نا کسی کو تکلیف نا پریشانی۔گاڑی کھڑی کی،کام کیا،شاپنگ کی اور آرام سے بغیر کسی تکلیف کے گاڑی نکال کر لے گئے۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ لوگ،جو پاکستان میں قانون کو خاطر میں نہیں لاتے یہاں بلاچوں چرا وہی کرتے ہیں جو قانون کہتا ہے۔گاڑی سیٹ بیلٹ باندھے بغیر نہیں چلاتے۔حدِرفتار کاخیال رکھتے ہیں۔اشاروں پر رکتے ہیں چاہے اردگرد دیکھنے کوئی نا ہو۔ گاڑی پارکنگ لاٹ میں دو سفید لائینوں کے درمیان اس طرح کھڑی کرتے ہیں کہ سفید لائن پر گاڑی کا پہیہ نہیں آتا،یہ معمولی معمولی سی باتیں ہیں جن پر عمل کرنا مشکل کام بھی نہیں پھر بھی ہمارے ہاں لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے۔اصولوں کو توڑنا،قانون شکنی ہمارا شیوہ کیوں بن گیا۔بہ حیثیت قوم یہ کتنی معیوب بات ہے۔آخر یہاں بھی تو یہ لوگ ہیں۔ کس قدر شفاف نظام چلا رہے ہیں۔صفائی اور قانون کے احترام نے مجھے سوچنے پر مجبور  کر دیا تھا۔
،،ابو چلیں،،
رابعہ نے مجھے محو دیکھ کر کہا۔
رابعہ،بوٹ(پاکستان میں ڈکی) سے عنایہ کا سٹولر نکال کر عنایہ کو اس میں بیٹھا کر مجھ سے مخاطب تھی۔
،،ہاں ہاں چلو،،
میں نے محویت سے نکلتے ہوئے کہا
ہم میسی سٹور میں داخل ہوئے۔اتنا بڑا سٹور جو ایکڑوں پر محیط ہے میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔یہاں کیا کچھ نہیں تھا، مختلف چیزیں بڑے سلیقے سے سجی ہوئی تھیں۔ایک ایک حصہ ہمارے سنٹورس سٹور سے بڑا تھا۔کہیں کراکری تھی،قیمتی کرسٹل کے برتن، ڈیکوریشن کی جگمگاتی چیزیں،چمکتی دمکتی کٹلری،کوئی حصہ زنانہ لباسوں کے لئے مختص تھا،کہیں مردانہ قمیضیں اور سوٹ تھے،کوئی کھلونوں کا حصہ تھا تو کہیں ہر قسم کے جوتے ریکوں میں سجے تھے اور بے شمار چیزیں تھیں۔اوپر بھی اتنا ہی طویل و عریض علاقہ تھا ایسکیلیٹر سے لوگ اوپر جا رہے تھے،نیچے آ رہے تھے۔ایک طرف لفٹ بھی استعمال ہو رہی تھی جن لوگوں کے ساتھ سٹولر ہوتے ہیں وہ لفٹ ہی استعمال کرتے ہیں۔

لوگ شاپنگ میں مصروف تھے،کاؤنٹر پر زیادہ تر لیڈیز کھڑی تھیں،کمپئیوٹر سے قیمتیں لگائی جا رہی تھیں۔لوگ سامان خرید کر آ جا رہے تھے لیکنکیا مجال جو شور شرابہ ہو یا دھکم پیل ہو،کاونٹروں پر لوگ اپنا سامان اٹھائے قطاروں میں نظر آ رہے تھے۔باری آنے پر سیل گرل کے سامنے رکھ رہے تھے،بل ادا کر رہے تھے اور اپنی راہ لے رہے تھے۔
ہم نے میسی نے بیشتر حصے دیکھ لئے۔اوپری منزل پر فوڈ کورٹ بھی تھی،کھانے پینے کی دکانیں۔اتنا بڑا میسی دیکھتے دیکھتے بہت وقت لگ گیا۔رابعہ کہنے لگی فوڈ کورٹ سے کھانا کھا لیتے ہیں لیکن ہم نے کہا کہ عنایہ کو فرائز لے دو،کھانا ہم گھر چل کر کھائیں گے۔اس وقت تک عدیل بھی واپس آ گیا ہوگا۔
رابعہ نے کہا 
،،جیسی آپ کی مرضی،،
پھر رابعہ کہنے لگی کیوں نا اب ساتھ والے مآل میں چلیں۔لیکن ہم نے کانوں کو ہاتھ لگائے کیونکہ میسی اتنا بڑا مآل ہے کہ اس کا ایک چکر لگا کر ہی ہم تھک گئے تھے۔ہم نے رابعہ سے کہا،،آج نہیں پھر کسی دن آئیں گے،آج بہت تھک گئے ہیں،،۔
ہم باتیں کرتے کرتے باہر نکل آئے،چار بج گئے تھے،سٹور میں گھومتے پھرتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔وہاں سے ہم حلال سٹور آئے قیمے کا پیکٹ پکڑا اور گھر کو چل دئیے،گھر پہنچتے پہنچتے پانچ بج گئے۔میں خاصا تھک گیا تھا،گھر پہنچتے ہی صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔ہماری بیگم اور رابعہ اپنی شاپنگ دیکھنے لگیں۔

Post a Comment