(Luray Caverns)قدرتی لینڈ مارک۔لیورے کیونز


امریکہ میں جانے کے ابتدائی ایام میں تو رمضان المبارک کی وجہ سے زیادہ نکلنا نہیں ہوا،لیکن پھر چل سو چل۔یہ ملک ایک عجائبات کا گڑھ ہے۔میری خواہش تھی کہ کم سے کم وقت میں یہاں چہار سو پھیلی حیرتوں کودیکھ کر خود میں سمیٹ لوں۔عدیل نے ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی  ان حیرتوں کو دکھانے کا پروگرام مرتب کر رکھا تھا اور ان حیرتوں میں سے ایک حیرت لیورے کیون ہے۔لیورے کیونز  امریکہ کی ریاست ورجینیا میں شینن ڈوا ویلی کے شہر لیورے میں سکائی لائن ڈرائیو اور نیشنل پارک کے نزدیک واقع ہیں۔لیورے کیون دیکھ کر اللہ کی قدرت کا احساس بڑی شدت  سے ہوتا ہے۔64ایکڑ رقبے پر مشتمل یہ کیون سن1878میں دریافت ہوئے۔ ان بڑے غاروں کی  ارضیاتی تاریخ بتاتی ہے کہ زیرِ زمین دریاؤں اور تیزاب ملے پانی کے چونے،پتھروں اور مٹی کی تہوں کی میں چالیس لاکھ سالہ رساؤ کے عمل نے ان غاروں کی تشکیل میں مدد دی۔وقت کے ساتھ ساتھ مٹی کی تہیں صاف ہوتی چلی گئیں اور صرف جونے اور پتھروں کے شیل(چھلکے) باقی رہ گئے۔کیورن بننے اور چونے کے پانی کے گرنے سے دھاتی ٹکڑوں کی تشکل و ترقی کے عمل کی مدت بعد یہ کیون(بڑے غار)برفانی مٹی سے بھر گئے۔تیزاب سے چارج ہونے والی مٹی نیان کو چھجوں میں کاٹ کر ان کی وضع قطع میں تبدیلی کر دی۔پھر جب بہتے پانی نے مٹی کو بہا دیا تو پرانے تراش خراش شدہ اور تبدیلیوں نے ایک معدنی شے(جو  غار  کی تہہ پر پانی کے قطروں کے قطروں کے ٹپکنے سے جم جائے)،ستونوں اور قلموں کو نئی شکلوں میں نمایاں کر دیا۔یہ کیون 30 سے140فٹ اونچے چیمبروں کے ایک گروپ پر مشتمل ہے جو بلاواسطہ لائیٹوں سے منور کئے گئے ہیں۔ان تمام جیمبرز کو کوریڈورں،سیڑھیوں اور پلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کیا گیا ہے۔

ہمارا پانچ رکنی وفد جب وہاں پہنچا تو ہمارے آگے ہمارے جیسے وفود کی ایک لمبی قطار تھی،ہمیں ٹکٹ لینے اور غار میں اترنے والی سیڑھیوں تک پہنچنے میں تقریباََِ ایک گھنٹہ لگ گیا۔کیون(بڑے غار) کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غار میں اترنے کیلئے ہمیں 178سیڑھیاں اترنی پڑیں،لیورے کیون میں سیڑھیاں اترتے ہی انتظامیہ کا ایک فرد کیون کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا تھا۔سیڑھیاں اترتے ہوئے عنایہ کا سٹولر عدیل نے فولڈنگ شکل میں اٹھایا ہوا تھا،نیچے اتر کر سٹولر کھول کر عنایہ کو اس میں بیٹھا کر ہم آگے بڑھنے لگے،ہمیں کسی جگہ بھی گھٹن کا احساس نہیں ہوا،ہواکس سمت سے اندر آ رہی تھی اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔کیون کے اندر درجہ حرارت خاصا کم تھا،بعض جگہ تو ٹھنڈک کا احساس ہو رہا تھا،ان کیون میں ایک پورا چکر تقریباََ ایک گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے،درمیان میں واپسی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ارضیاتی تغیر نے ان غاروں میں نوک دار ماربل کرسٹلز سے بے شمار شکلیں بنا دی ہیں۔پاکستان میں کھیوڑہ کی نمک کی کانوں  کی سیر کرنے والا یہاں کے تحیر کا معمولی سا اندازہ لگا سکتا ہے،ہم نے تو کھیوڑی کی کانیں بھی نہیں دیکھی تھیں اس لئے ہمارے لئے تو یہ بالکل نیا اور انوکھا تجربہ تھا،تحیر اور خوف کی ملی جھلی کیفیت ہم پر طاری تھی۔تحیر کا عالم کہتا تھا کہ،،اور تم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔خوف اس امر کا کہ جگہ جگہ سے پانی ٹپک رہا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سارا اسٹکچر اب گرا کے تب گرا،ہمیں اپنا تو اتنا کوئی خاص خیال نہیں تھا کہ زیادہ تر زندگی ہم گذار چکے،ہاں بچوں کا زیادہ خیال تھا خاص طور پر عنایہ کا۔بعض جگہ عنایہ رونے لگتی تھی ایسا لگتا تھا کہ وہ خوف زدہ ہے،اور خوف زدہ ہونا بھی چاہیئے کہ ابھی صرف تین سال کی ہے۔
ان کی خوبصورتی محسوس کی جا سکتی ہے،الفاظ میں بیان کرنا خاصا مشکل کام ہے،اس کی اندرونی خوبصورت کو تو کیپچر کرنے میں ہمارا ویڈیو کیمرا بھی ناکام ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔
انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قدیم تہذیبوں کی ابتدا میں انسان غاروں کو اپنی بود وباش کے لئے استعمال کیا کرتا تھا،تاریخ دان کہتے ہیں کہ انسان کا قدیم ترین ڈھانچہ ساؤتھ افریقہ  کے غاروں کی کھدائی کے دوران برآمد ہوا۔
 تہذیب و تمدن میں غاروں کا بہت عمل دخل ہے۔زمانہِ قدیم میں جب انسان غاروں میں قیام پذیر تھا تو نوکیلے پتھروں سے شکار کرتا تھا اسی دوران چقماق پتھروں کے آپس میں رگڑ کھانے سے جو شعلہ برآمد ہوا اس نے جہاں آگ کا تصور دلایا اور انسان کچے گوشت سے خوراک کو بھون کر کھانے لگا،وہیں آگ کو دیوتا قرار دے دیا گیا اور زرتشت مذہب نے جنم لیا۔
اسلام میں غاروں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اس لئے کے رب نے انسانیت کا پہلا درس ایک غار میں ہی دیا۔
مکہ سے چار کلو میٹر جنوب میں واقع جبل نور کی چوٹی پر واقع غار حرا میں ایک شخصیت عبادت میں مصروف ہے اچانک غار میں ایک آوازگونجی:
اقرا ِ َ ِ یعنی پڑھ
ایک دوسری آواز گونجی
”میں پڑھ نہیں سکتا“
یہ مکالمہ تھا خدا کے پیام رساں اور محسن انسانیت کے درمیان۔عرش اور فرش کے اس رابطے کے دوران خالقِ کائنات نے عبد کو معبود سے مانگنے کا سلیقہ سکھایا۔
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہِ کیمیا ساتھ لایا
اللہ کی جانب سے وحی کا آغاز ایک غار سے ہی ہوا۔حرا، کوئی کیون نہیں ہے،یہ ایک چھوٹا سا غار ہے،لیکن اپنی اہمیت کے اعتبار سے یہ غار بڑے سے بڑے کیون سے بڑا ہے۔کائنات کی سب سے بڑی تہذب کا آٖغاز اسی غار سے ہوا۔
لیورے کیون میں،میرے ذھن میں یہی ہلچل مچی ہوئی تھی،اسی سوچ اور تصور نے میرے دل سے خوف کا عنصر محو کر دیا،میرے دماغ میں ایک ندا گونجی کہ میرے آقا سرورِ کائنات بھی تو ایک غار میں ہی تھے جب اللہ ان سے ہم کلام ہوا،جب وہ بلا کسی خوف کے وہاں موجود تھے تو ایک امتی کی حیثیت میں مجھے بھی بلا خوف کیون کی سیر کرنی چاہیٗے کہ زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔
اس ذہنی کشمکش نے مجھے خوف سے آزاد کر دیا اور میں اللہ کی قدرت کو ایک نئے انداز میں دیکھنے لگا۔
لاکھوں سال کی قدرتی تخلیقی عمل نے ان کیونز کواللہ کی قدرت کا شاھکار بنا دیا ہے۔ماہرین اس قدرتی عمل کو چالیس لاکھ سال پر محیط قرار دیتے ہیں اللہ کی قدرت کا  یہ شاھکار اب سے 129سال پہلے اس وقت دریافت ہوا جب  ایک مقامی شخص اپنی بھتیجی اور چند اور افراد کے ساتھ اس مقام سے گذر رہا تھا تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کسی جانب سے آتے محسوس ہوئے انہوں نے کھوج لگایا تو پتہ چلا کہ پہاڑ کی ایک کھوہ سے یہ ہوا آ رہی ہے،ان کی کھدائی پر یہ غار دریافت ہوئے۔
دنیا بھر میں اب تک بے شمار کیونز دریافت ہو چکے ہیں۔صرف امریکہ میں 1104
بڑے اور چھوٹے غار دریافت ہو چکے ہیں جن میں وسعت کے اعتبار سے مامتھ غاروں کاسلسلہ سب سے بڑا ہے۔یہ سلسلہ 400میل پر پھیلا ہوا ہے جبکہ گہرائی لے لحاظ سے،،ہوئے ہوئے غار،، ہیں جو1623فٹ گہرے ہیں۔اس کے باوجود ان کیونز کا کوئی ثانی نہیں ہے۔یہ اپنی خوبصورتی اور مسخرکر دینے والی خصوصیات کی بنا پرشاندارقدرتی عجائبات میں سے ایک ہے اور ایک جادوائی عظمت کا نشان ہیں۔نیشنل جیو گرافک نے ان کیونز کو فیری لینڈ آف سٹون قرار دیا ہے۔
ہم سب نے اس سارے وقت ایسا محسوس کیا جیسے پتھروں کے اس عجائبات نے ہمیں اسیر کر لیا ہو۔


---0---0---

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں