پٹامک ریور،گریٹ فالز اورراک کریک پارک


انٹرنیٹ کی دنیا بھی بڑی عجیب ہے۔دور دراز جگہ پر بیٹھا ہوا شخص ایسا محسوس کرتا ہے کہ وہ دور ہوتے ہوئے بھی اپنوں کے ساتھ ہے،عدیل کے فلیٹ میں بیٹھ کر انٹرنیٹ دنیا بھر میں موجود احباب کو میرے رابطے میں رکھتا ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہے قدیر پیرزادہ نے پاکستان میں ہنزہ ویلی اور اس کے گرد و نواح کے تفریحی مقامات پر اپنے دوستوں کے ساتھ تفریح کرتے ہوئے ویلی دیکھتے دکھاتے ہوئے،تصاویر  اور ویڈیوز لوڈ کی ہیں،یقین کیجئے،دل خوش ہوگیا،پاکستان واقعی دنیا میں اپنے تفریحی مقامات کے اعتبار سے جنتِ بینظیر ہے۔امریکہ میں ہم یہاں کی یاترہ کر رہے ہیں،روز کسی نا کسی مقام کی سیر۔
 گریٹ فالز ایک تفریحی مقام ہے جہاں دریائے پٹامک کا تیز بہتا پانی فال کی شکل میں تیزی سے گرتا بھلا لگتا ہے۔اردگرد جنگل نما پارک جس میں بورڈ واک کرنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ہمارے ہاں تفریحی مقامات پر انتظامات کا فقدان ہے۔امریکہ میں جگہ جگہ تفریحی مقامات پر وہ چاہے خوبصورت ہوں یا نہیں لیکن سیاحوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ مقامات کے تحفظ کا بھی پورا پورا خیال کیا جاتا ہے۔دریائے پٹامک کے اردگرد جنگل نما پارک میں سے دریائے پٹامک کی فالز کے قابلِ دیدمقامات دیکھنے کے لئے لکڑی کی گذر گاہیں بنا رکھی ہیں جن کے دونوں جانب حفاظتی جنگلے نصب ہیں تاکہ کوئی شخص بھی ان جنگلوں  میں نا جا سکے۔
عدیل کے مطابق گریٹ فالز کے آس پاس جتنے جنگل ہیں وہاں انسان قدم نہیں رکھ سکتا،ان کے اندر جانا منع بھی ہے اور خطرناک بھی۔اندر جانا منع اس لئے بھی ہے کہ وہ قدیمی حالت میں جوں کے توں محفوظ رہیں اور وہاں سے ایک ٹہنی اٹھا 

کر لے جانا بھی جرم ہے۔امریکیوں کو اپنی سرزمیں سنبھالنے کا فن آتا ہے۔وہ اسے دھرتی ماں سمجھتے ہیں اور اس کی دل و جاں سے حفاظت کرتے ہیں۔انہیں خبط ہے اپنے جانوروں،پرندوں،جنگلوں،دلدلوں،ندیوں،آبشاروں اور قدیمی غاروں کو محفوظ کرنے اور سنبھالنے کا۔انہیں انسانوں سے بلند درجے پر فائز کرنے کا۔اصل میں یہ خصوصیت یہاں کے قدیمی آباد باشندوں کے خون میں تھی جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پھیل کر پورے امریکیوں میں پھیل گئی ہے۔
جن لوگوں کے پاس قدیم تاریخ ہے وہ اپنے ماضی کو سنبھالنے میں کمال کرتے ہیں۔پاکستانی ایسی ہی قوم ہے ہڑپہ اور مہنجوڈارو،جہاں کے عجائب گھر اس خطے کی سات ہزار سال قدیم تہذیب کی نمائیندگی کرتے ہیں۔ان کی بودوباش،تہذیبو تمدن،کیا کچھ نہیں ہے ان کے پاس۔پاکستان کے بعد امریکہ میں مجھے احساس ہوا کہ یہ قوم بھی ماضی سنبھالتی ہے۔پاکستان ایک پرانی دنیا ہے اس نے اپنا ماضی سنبھالنا ہے لیکن ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہماری ثقافت کیا ہے اور ہماری تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ہمارے پاس قدیم ثقافت بھی ہے اور شاندار سرزمین بھی یعنی ہمارے پاس دونوں کے شواہد ہیں،اپنی ثقاف اور سرزمین سے عشق تبھی ہوتا ہے جب آپ ایک قوم ہوں،اپنی دھرتی کے وارث ہوں اور اس کے باسی ہونے پر فخر کریں۔ہندوستان نے اردو کو ہندی کا نام دیا اور اسے اپنی دھرتی سے جوڑا،اسے ایک نیا رسم الخط دے کر اسے اپنا لیا۔ہم اردو کو عربی اسم الخط میں اپنانے کے باوجود اسے دھرتی سے جوڑ کر،،پاکستانی،، کا نام نا دے سکے۔

امریکہ اک نئی دنیا ہے جس کے پاس کوئی ماضی نہیں صرف حال ہے اور اسی حال میں جو کچھ اس کے پاس ہے امریکیوں کو اسی کو سنبھالنا ہے۔
دریائے پٹامک امریکہ کی چار ریاستوں،میری لینڈ،ورجینیا،مغربی ورجینیا اور واشنگٹن  کو سیراب کرتا ہے۔ اس کے ایک کنارے پر میری لینڈ اور واشنگٹن کی سرحد ختم ہوتی ہے تو دوسری جانب ورجینیا کی دونوں ریاستیں ہیں۔پٹامک گریٹ فالز کے قابلِ دید مقامات میری لینڈ کی جانب سے علیٰحدہ خوبصورتی رکھتے ہیں جبکہ ورجینیا کی جانب سے مناظر واقعی قابلِ دید ہیں۔یہ بات اپنی جگہ،لیکنہمارے پاکستان کے بالائی سرحدی علاقوں میں بہتے دریاؤں کے فالز اپنی مثال آپ ہیں۔
پٹامک دریا 405میل لمبائی کا حامل ہے،امریکہ میں بہنے والے دریاؤں میں یہ اکیسویں (21) نمبر پر ہے۔
دریائے پٹامک اپنے ساتھ نوح الاقسام تہذیبیں ساتھ لاتا ہے،مغربی ورجینیا کے بالائی بہاؤ کے علاقے میں بسنے والے کوئلہ کے کان کنوں سے لے کر زیریں شہری علاقے درالخلافہ کے رہائیشیوں کے علاؤہ شمالی ورجینیا کے مچھیروں تک۔
امریکہ کی تاریخ اور ثقافت میں اہمیت کی بنا پر پٹامک کو،،قوم کا دریا،، کا نام دیا گیا۔جارج واشنگٹن،امریکہ کے پہلے صدر،اسی علاقے میں پیدا ہوئے اور زندگی کا بیشتر حصہ پٹامک کے طاس میں گذارا،اسی علاقے میں امریکہ نے تین سول جنگیں سن1859،سن1861اورسن1862میں لڑیں۔سن1862میں ہونے والی سول وار میں جنرل رابرٹ ای لی نے اس دریا کو عبور کیا بالکل اسی طرح جیسے سکندرِاعظم نے دریائے سندھ کے دوسری جانب صف آرا راجہ پورس سے جنگ کے لئے  اس بپھرے ہوئے دریا کو عبورکیا تھا اور اسے شکست دی تھی۔اسی دریا کے گریٹ فالز کی خوبصورتی  دیکھتے تاریخ کا ایک بہتا دریا عود کر آیا تھا۔
امریکہ اورپاکستان کی تاریخ و ثقافت کے بارے میں سوچتے ہوئے جنرل رابرٹ کا تصور میری نظروں کے سامنے پھرگیا کہ کس طرح اس وقت دریائے پٹامک کے پانیوں پر کھوکھلے تنے والے کینٹؤ پر تیر کر دریا عبور کیا ہو گا۔جنرل اور ان کی فوج کے سرخ و سفید بدنوں پر سورج کی کرنیں پڑ رہی ہوں گی۔میں جس جگہ کھڑا تھا وہاں بادل میرے اور دھوپ کی راہ میں حائل تھے،اچانک بادل چھٹ گئے۔گرمی کے اچانک اس احساس نے محسوس کرایا کہ وہ بھی دھوپ چھاؤں کے اس کھیل سے گذرے ہوں گے۔سامنے سے بہہ کر آتا پانی بتا رہا تھا کہ معلوم تاریخ کے مطابق دریائے پٹامک کے بہتے پانی دس،بیس لاکھ سے ایسے ہی بہہ رہے ہوں گے بالکل اسی طرح جیسے سکندرِ اعظم نے دریائے سندھ کو عبور کرتے ہوئے محسوس کیا ہو گا۔
ایک سحر تھا جو مجھ پر طاری تھا،تاریخ کے ڈوبتے،ابھرتے اوراق اس علاقے  کی کہانی بیان کر رہے تھے۔
،،پاپا یہ آپ اچانک کہاں کھو جاتے ہیں،ابھی پیچھے آپ گرتے گرتے بچے ہیں،پیر پر چوٹ بھی لگ سکتی تھی،، عدیل نے فکرمندانہ لہجے میں کہا۔میں اسے کیا بتاتا کہ میں تاریخ کے کس دور میں پہنچ گیا تھا،میں نے کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ اس کی جانب دیکھا،ایک ناقابلِ قبول سا جواز پیش کیا اور آگے چل دیا۔
میری لینڈ سے گریٹ فالز کی جانب جاتے ہوئے پٹامک دریا سے پہلے دائیں جانب سرسبز علاقہ راک کریک پارک  ہے۔اس ہائی وے پر اس علاقے سے گذرتے ہوئے میں دیکھ رہا تھا کہ وہاں ہائیکنگ کے رستے بنے ہوئے تھے جن پر لوگ جوگنگ کر رہے تھے۔ایک پونی ہلاتی لڑکی اپنے کتے کے ساتھ اسی ہائیکنگ ٹریک پر بھاگتی نظر آئی،گاڑی کی رفتار بحر طور ان کی جوگنگ کی رفتار سے تیز تھی اس لئے یہ منظر بھی تیزی سے گذر گیا۔
راک کریک پارک سن1890میں کانگرس کے ایک ایکٹ کے ذریعے معرض وجود میں آنے والا تیسرا نیشنل پارک تھا لیکن آج کل اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نیشنل پارک سروس کے پاس ہے۔امریکہ کے ایک صدر بنجمن ہیری سن نے کانگرس کے اس ایکٹ پر دستخط کئے۔نیشنل پارک سسٹم میں شامل یہ سب سے قدیم قدرتی شہری پارک ہے جس کی تعمیر سن1897میں شروع ہوئی۔یہ پارک تقریباََ 2000 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔

راک کریک پارک دوسرے جنگل نما پارکوں کی طرح ہی ہے لیکن اسے بڑا منظم کیا ہوا ہے۔ یہ امریکہ کا حال ہے،یہ کیا یہاں کا ہر پارک ہی ان کا حال ہے اوراپنے حال کو سنبھالنے کا فن امریکیوں کو خوب آتا ہے یہاں جنگل سے ایک ٹہنی بھی اٹھا کر لے جانا جرم ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ اتنا سرسبز نظر آتا ہے،ایک ہم ہیں کہ جنگل کے جنگل بیچ کھاتے ہیں اور کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ٹمبر مافیا کی انہی حرکتوں کی وجہ سے حسین ترین پاکستا ن حسین ترین نظر نہیں آتا،بارشوں کے نا ہونے کی وجہ کم ہوتے جنگلات ہیں،بارشوں کے نا ہونے کی وجہ اور جنگلوں کی تعداد میں ہونے والی کمی نے ہمیں دنیا کی ان قوموں میں کرا دیا ہے جو پانی کی کمی کا شکار ہیں۔امریکہ کو اپنا ماضی،اپنا حال سنبھالنا آتا ہے،ہمیں یہی نہیں معلوم ہمیں 
 کرنا کیا ہے۔ 

Post a Comment