کتاب اور انسان کا رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتناکہ خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اورعلم و آگہی کی تاریخ۔تہذیب کی روشنی اور تمدن کے اجالے سے جب انسانی ذہن کے دریچے بتدریج کھُل گئے تو کتاب کے وسیلے سے اس کے ہاتھ ایسی شاہی کلید آ گئی جس نے اس کے سامنے علم و ہنر کے دروازے کھول دیئے۔ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے، سمندروں کی تہیں کھنگالنے  اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا شوق اس کے رگ و پے میں سرایت کر گیا۔علم و فن نے اس کی ذہنی نشوونما،مادی آسائشیں اور انقلابِ فکر و نظر کا سامان پیدا کیا۔غرض اس نے شخصیت سازی کا سامان ہی نہیں کیابلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفر بن گئی۔زندہ قوموں کا  یہی شعاراور فطرتِ ثانیہ لئے رضا صدیقی بھی ”بولتے کالم “ کے ہمرکاب دبستانِ کتاب میں نئے باب کا اضافہ کرنے کا عزم لئے ہوئے ہیں۔وہ کتابوں کی گفتگو خود ہی نہیں سنتے بلکہ دوسروں کی سماعتوں کے در بھی وا کرنے کااہتمام کرتے ہیں۔ایسا کیوں نہ ہو بابا جی سرکارمرشدِ کامل، اپنے بابا ضیاالحق صدیقی کی محبتیں ان کی ہمرکاب ہیں جو شعور و آگہی کی منزلوں تک جانے کے لئے ان کے راستے کا چراغ ہیں۔’اپنی کتاب’کتابیں بولتی ہیں“کے آغاز میں ہی والٹیئر کی دل کو چھو جانے والی حکایت بیان کر کے انسان اور وحشی کے فرق کو آشکار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
”آپ کو اس حقیقت کا شعور ہونا چاہئے کہ جب سے دنیا بنی ہے، وحشی انسانوں کو چھوڑ کر دنیا پر کتابوں نے حُکمرانی کی ہے“
رضا صدیقی کو اس اَمر کا اِدراک ہے کہ لفظ بولتے ہیں، رقص کرتے ہیں۔اپنی بزم سجاتے ہیں۔ وہ اُن کی بزم میں ”بولتے کالم“ کا مسکن آباد کرتے  ہیں۔ وہیں جہانِ معنی کی سیپیاں  چنتے چنتے اُن پر یہ راز آشکارہوتا ہے کہ ’کتابیں بولتی ہیں“۔وہ ان کی گفتگو سننے کے لئے نظم و نثر کے آستانے کی قدم بوسی کرتے ہیں  تو ”آواز میں لِپٹی خاموشی“ سرحد پار سے ان کے”گلزارِ“ فکر کو معطر کرتی ہے اور پھرکہانیاں اپنی جبلت کے در وا کرتے کرتے ”حنا“بندی کرتی ہیں۔”میّا“اُن کا سواگت کرتی ہے تو اپنے گر دو پیش میں ”فرحت“ کا احساس ہوتا ہے۔اس دبستان میں ”جگنوؤں کے قافلے ان پر معنویت کے رموز آشکار کرتے ہیں تو اُن پر یہ عُقدہ کھُلتا ہے کہ ”مصر میرا خواب“ ہے۔جہاں ”فرشتے کے آنسو“ بھی ہیں،”لمحوں کی قید“ بھی ہے او پھر ”کوئی چور لمحہ“  ،”افسانوی دنیا“ سے ملاقات کا اہتمام کرتا ہے تو ”صبا“ کا جھونکا ”دلِ دردآشنا“ بن کرافکارِ جدید کا پتہ بتاتا ہے۔جہاں ”گمان آباد“ اعجازِ گل لئے  غزل کے روپ میں در آتا ہے اور ا نہیں یوں خراجِ تحسین پیش کرتا ہے،”تیرا احسان غزل ہے“لیکن ان لمحوں کو ابھی کشید کر لو کیونکہ ”موسم کا اعتبار نہیں“ اور”سرد موسم کی دھوپ میں“جلتی ہوا کا گیت“ گایا تو ”خوابوں سے رشتہ ٹوٹ جائے گا“ لیکن نہیں ’ یہ نہ کہنا ”میں آنکھیں بھول آیا ہوں ’‘  کہیں ”کاجل سے خفا آنکھیں“ تصورات کی تصویر کاری“ کرتے کرتے یہ دکھانے نہ بیٹھ جائیں،”تیرے شہرِ وصا ل میں‘‘ یہ حساب ہیں ماہ و سال کے“لیکن اس بات کی فکر دامن گیر نہ کرنا کیونکہ   ”ابھی گفتگو ہونے کے بعد”“آثارِ جنوں“ ظاہر ہوئے بھی تو  ”عشق آباد“سب سنبھال لے گا۔وہاں ”کچی کرن شبنم“ غروبِ شب“ میں ”نیلے چاند کی رات“ اوڑھے جب اُترے گی تو ”ہر سفر دائرہ“ بن کر ”زادِ عشق“ بنے گا۔جہاں ”گیلی چُپ یہ کہے گی،”تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں“آرزوئے وصال“ اگر ہے  اور ”ایک سفر اندھیرے میں“  درپیش ہے  تو ”دیوار میں دیوار“ ”کوفہئ سخن“ میں لے گئی تو کیا ڈر” نیشِ عشق“سواگت کرنے کو”روحِ سخن“کی بارگاہ میں آیا تو   ”کائنات مٹھی میں“ آنے کو بیتاب ہو گی اور پھر  ”ثنائے سرور ﷺ“  بارگاہ ِ ”اقراء میں آکر“اَنا مدینۃالعلم و علی ؑ بابُھا“ کے طلسم سے شعور و آگہی کے نئے در وا کر کے زمان و مکان کی نئی وسعتوں کا پتہ دے گی۔
رضا صدیقی ان نئی منزلوں، نئے راستوں کے مسافر ہیں آن لائن ادبی ٹی وی دبستان ہو یا بولتا کالم وہ ہر جگہ جدت اور اسلوب کو نمایاں مقام دیتے ہیں۔ زیرِ نظر اس تصنیف کو مرتب کرنے کے لئے  وہ ساگرِ ادب سے نگینے چُن چُن کر لائے ہیں۔ یہاں احمد ندیم قاسمی کا افسانوی سفربھی ہے، گلزار کی گلزاریاں بھی،مشرف عالم ذوقی کی کہانیاں بھی ہیں اور زاہدہ حنا،،نیلم احمد بشیر، سلمیٰ اعوان،ڈاکٹر بلند اقبال، فرحت پروین، محمد حمید شاہد،لیاقت علی،غلام فرید کاٹھیہ،اسلم سحاب ہاشمی،،روحی طاہر،انوار زاہدی کی افسانوی دنیا کی سیر کا اہتمام بھی،جہاں نفسیات، روحانیت  اور قلبی کشمکش سے جُڑی عصری زندگی دھیرے دھیرے یہ کہتی سنائی دیتی ہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہِہِ شیشہ گری کا
اس بزمِ شیشہ گراں سے نکلتے ہیں تو مجید امجدکی شاعری زمین کی مہک لئے ہوئے، شاعر کے باطن کی دنیا کوخارج سے ہم آہنگ کرتی، دبستانِ نظم کو نیا آہنگ عطا کرتی دکھائی دیتی ہے۔یہاں خالد احمد کا فکری وجدان بھی ہے اور صبیحہ صباکی حساسیت کا چمنستان بھی،اعجاز گل کا اعجازِ گمان بھی ہے تو طاہر سعید کے دوہوں کا بادبان بھی ہے اورظہور الاسلام جاوید کا  جہانِ نکتہ دان بھی ۔یہاں صغیر احمد جعفری کی انفرادیت بھی ہے  اورڈاکٹرصباحت عاصم واسطی کی معرفت و علامت بھی،ڈاکٹر زبیر فاروق کی ایمائیت بھی ہے اورڈاکٹر ثروت زہرہ کی کلاسیکیت بھی،سحر تاب رومانی کی نرگسیت بھی ہے  اورعلامہ عطاء اللہ جنوں کی جدیدیت بھی ، یہاں سید کامی شاہ کی اساسیت بھی  ہے  اور زبیرقیصر کی یاسیت بھی، نوید ملک کی روایت بھی ہے، رخسانہ سحر کا سحرِ محبت بھی،یہاں ناہید وِرک کی رائیگانی بھی ہے، سعید آسی کی سادگی و بے ساختگی بھی۔عباس تابش کی ترکیب سازی بھی ہے  اورعرفان صادق کا حُسنِ تخلیق کاری بھی۔یہاں حامد یزدانی کی امیجری بھی ہے  اورناصر رضوی کی گیت نگاری بھی، زاہد عباس کی نغمگی بھی ہے اورافضال نوید کی وارداتِ قلبی بھی،جعفر شیرازی کی گونہ بے خودی بھی ہے  اور،بشیر احمدبشیر کی عروضی پختگی بھی، یہاں قمر رضا شہزاد کی یاد دہانی بھی ہے اورمحمود احمد محمود کی دوہا نگاری بھی، ناصر شہزاد کی گیت نگاری بھی ہیاور  ارشد ملک کی خود شناسی بھی یہاں واصف سجاد کا فہمِ سخن بھی ہے اور ڈاکٹراحمد علی برقی اعظمی کی روحِ سخن بھی،ایزد عزیز کا جنون بھی ہے تو افتخار شفیع کا ،فنون بھی  اوصاف شیخ کا بے ساختہ پن بھی ہے، ضیاء شاہد کا حُرمتِ فن بھی ہے اورساجد پیر زادہ کا احساسِ جنوں بھی۔ یہاں لیاقت علی عاصم کی غزل گوئی  بھی،یہاں حیدر علی ساحرکی ساحری بھی ہے اور ناصر ملک کی مکالماتی شاعری بھی،یہاں ایم زیڈ کنول ؔ کی کائنات مٹھی میں بھی ہے اورشمس الغنی کاوسعتِ معنی بھی،اور علی رضا کا فنِ نعت گوئی بھی،
رضا صدیقی صاحب! آج کے حبس زدہ دور میں آپ  نے ذہنوں کی طراوت کا جو سامان کیا ہے۔ امید ہے کہ اس کی خوشبو چار دانگِ عالم کو معطر کرنے کا سامان ضرور کرے گی۔ آپ  کا شبستانِ آرزو آباد رہے اور ہماری قوم بھی اس حقیقت کو جان لے کہ۔
”اِس قوم کو جوتوں کی نہیں کتابوں کی ضرورت ہے“ جب تک ہمیں یہ احساس نہیں ہو گا ہم نہ تو شرح خواندگی بڑھا سکتے ہیں، نہ مہنگائی کے جِن کو قابو میں لا سکتے ہیں، نہ دورِ حاضر کے تقاضوں میں اُن کا ساتھ دینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔اور نہ اقبال کے اس خواب کی تعبیر 
ذر انم ہو تو یہ مِٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“ کو حرزِ جان جان کر نسلِ نو کی تربیت کا اہتمام کر سکتے ہیں۔
۔بلا شبہ  یہ ادیبوں اور شاعروں کا کام ہے۔آپ نے گروپ بندی کے حصار کو توڑ کر صرف لوح و قلم کی پرورش کا  جوسامان کیا ہے۔ صوت و آہنگ کی جو بزم بسائی ہے یہ دائم آباد رہے۔آمین!
تحریر۔۔ایم زیڈ کنولؔ، چیف ایگزیکٹو، جگنو انٹر نیشنل۔لاہور،ایڈیٹر احساس۔۔جرمنی

2 تبصرے

  1. رضاء الحق صدیقی کی تازہ ترین کتاب ’’ کتابیں بولتی ہیں ‘‘ پر منظوم تاثرات
    احمدعلی برقیؔ اعظمی
    رضا صدیقی کی تحریر پڑھنا سب کی چاہت ہے
    ’’ کتابیں بولتی ہیں ‘‘ گوش شنوا کی ضرورت ہے
    نہیں بڑھ کر کتابوں سے جہاں میں کوئی دولت ہے
    نہیں حاصل کسی کو جو کتابوں کو فضیلت ہے
    سنا ہے اُن کے کالم بولتے تھے پہلے ٹی وی پر
    جہانِ علم و دانش میں جو اُن کی وجہہِ شہرت ہے
    مضامیں کا رضا صدیقی کے دلکش یہ مجموعہ
    نگاہِ اہل دانش میں نہایت بیش قیمت ہے
    جنہیں رغبت کُتُب سے ہے نہ کیوں ہوں اس کے گرویدہ
    ہیں دلکش تبصرے بھی ، سرورق بھی خوبصورت ہے
    نئے اسلوب میں ہے ندرتِ فکر و نظر ان کے
    شعورِ فکر و فن سے ہر کسی کو اُن کے رغبت ہے
    کتابیں زندگی کا ایسا سرمایہ ہیں انساں کی
    جنھیں مِل جائے برقیؔ اس کے حق میں ایک نعمت ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. تبصرہ ایم زیڈ کنول کا ہے نہایت دلنشیں
    ان کی اس نقد و نظر پر آفریں صد آفرریں

    ہیں رضا صدیقی کے بھی تجزئے بیحد حسیں
    کرتے ہیں ہموار جو فکری تناظر کی زمیں
    احمد علی برقی اعظمی

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں