سحر تاب رومانی
جہاں رکھا پریشانی میں رکھا 
مجھے اس دل نے نادانی میں رکھا
جسے انمول کر ڈالا ھے میں نے 
اسی نے مجھ کو ارزانی میں رکھا
نگل جائے گا دریا کی روانی 
کسی صحرا کو گر پانی میں رکھا
کہیں اک رات ھےچپ کا سمندر 
کہیں اک خواب ویرانی میں رکھا
کسی نے سنگ کو آئینہ کر کے 
سدا آنکھوں کو حیرانی میں رکھا
بدن باہر سے ھے ملبوس کتنا 
مگر باطن ھے عریانی میں رکھا
سحر مجھ کو مرے شوق_ جنوں نے 
حسیں جذبوں کی طغیانی میں رکھا


Post a Comment