لیاقت علی
”ڈاکٹرحیدرمحض اک شخص کا نہیں عہد کا نام ہے۔ اِک چراغ جو روشن ہوتا ہے تو ہرسُو روشنی پھیل جاتی ہے۔ وہ خیال کو لفظ، لفظ کو معنی اور معنی کو ابلاغ کا وقار عطا کرنا جانتا ہے۔ وہ سچ! وہ کڑوازہر، جوہم میں سے اکثر پینے سے کتراتے ہیں، اُس کا پسندیدہ مشروب ہے…!
سقراط پر نئی نسل کو بگاڑنے کا الزام تھا،سو اُسے زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ ڈاکٹرحیدرنئی نسل کو سنوارنے کا مرتکب ہوا ہے دیکھئے اُس کے حصے میں کون سا جام آتا ہے!“
ڈاکٹرحیدرجو عین اُسی لمحے اپنے سامنے سجی خوب صورت طشتری میں سلیقے سے سجے منرل واٹر کے گلاس پر سے باریک کور ہٹانے کے لئے ذرا سا اپنی نشست سے آگے کو جھکے ہوئے تھے، چونکے۔ خاموش حاضرین میں سے کسی کی دبی دبی ہنسی نکلی تو صاحبِ مقالہ نے شعوری طور پر ذرا سا وقفہ لیا۔
”ہاں تو معزز حاضرینِ محفل میں کہہ رہا تھا کہ اسے ہماری خوش قسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ انہیں ہمارے شہر کی سب سے بڑی درس گاہ کا سربراہ منتخب کیا گیا ہے۔ وہ محض بڑے اُستاد ہی نہیں انسان بھی ہیں۔ ایسا انسان جو اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتا ہے۔ ایسے باخبر آدمی سے متعلق کیا یہ قیاس بھی کیا جاسکتا ہے کہ اُسے اس عظیم درس گاہ کے اندرونی مسائل سے بخوبی واقفیت نہ ہوگی؟
وہ یقینا جانتے ہیں کہ معمارانِ وطن کا یہ کارواں کن کن مشکلات سے دوچار ہے۔ اُنہیں یہ بتانے کی بھی قطعی کوئی ضرورت نہیں کہ ایک مطمئن دماغ ہی سودمند دماغ ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ ہم ایسوں کی سفیدپوشی اور تنگ دستی سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ جو مقابلے کے اِس دَور میں خود تو ایک نسل کو بہتر سے بہتر مستقبل مہیا کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں لیکن ہمارے اپنے بچے آج بھی دوسرے درجے کے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اس یونیورسٹی کے سابقہ سربراہ کی بہت سی کوتاہیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اُس شاندار حکمتِ عملی کو یہاں بھی متعارف کروائیں گے کہ جو انہیں یہ اعلیٰ اعزاز بخشنے کا سبب بنی۔ آپ میں سے چند معزز اصحاب کے چہروں پر پھیلنے والی مسکراہٹ یقینا اس سوال کو جنم دے رہی ہے کہ ہم نے تو سابقہ وائس چانسلر کی دُوراندیشی اور نیک نیتی کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا تھا؟“
مسٹرحیدر نے غیرمحسوس طریقے سے کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ دوڑائی۔
تقریر جاری تھی۔
”یقینا! یقینا یہ خراج پیش کیا گیا تھا کیونکہ ہم تو بجھتے ہوئے چراغوں میں بھی روشنی کی آخری موہوم اُمید کو تلاش کرنے کے قائل ہیں۔لیکن افسوس کہ ہم اور آپ اُس روشنی سے محروم رہے۔ مگر یقین رکھئے اور مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹرحیدر ایسی علم دوست ہستی میری اس گفتگو میں چھپے معنی کے اُس جہان کو یقینا سمجھ رہی ہوگی کہ جنہیں میرے الفاظ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ وہ لفظوں کے اس گورکھ دھندے سے بخوبی واقف ہیں اور یہ آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سب باتیں کسی اُمید پرست کی خام خیالی نہیں بلکہ وہ اٹل حقیقت ہے کہ جسے جھٹلانا شاید مشکل ہوگا۔“ 
ڈائس کے ایک کونے سے ایک چھوٹی سی چٹ صاحب ِمقالہ کی طرف منتقل ہوئی۔ غیرمحسوس طریقے سے کلائی کی جانب اُٹھنے والی ڈاکٹر حیدر کی نگاہیں یقینا کسی نظرشناس کی نظروں میں تھیں۔
”جی ہاں! تو میں اپنی بات کو مزید پھیلا کر آپ اور اُن میں زیادہ دیر حائل نہیں رہنا چاہتا۔ بس اپنے اور اپنے شعبے کے تمام سٹاف ممبران کی طرف سے انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے یہ اُمید رکھتا ہوں کہ وہ ان مسائل پر خصوصی دھیان دیں گے کہ جو ہمارے بچوں کے بہتر مستقبل اور سودمند شہری ہونے میں ایک دیوار بنے ہوئے ہیں۔“
صدرِشعبہ، ڈاکٹرراؤ کی استقبالیہ تقریر ختم ہوئی تو حاضرین کی پُرتکلف اور احتیاط سے بجائی گئی تالیوں کی ہلکی سی گونج نے ہال کے سکوت کو کچھ دیر کے لئے توڑا۔ سیکرٹری صاحب نے دوبارہ سٹیج سنبھالا اور ڈاکٹرحیدر کو ڈائس پر آنے کی دعوت دی کہ جن کی تقریر انتہائی غیرمحسوس انداز میں پہلے ہی ڈائس پر پہنچا دی گئی تھی۔ 
(۲)
ڈاکٹرحیدر نے جس روز سے سبزنمبرپلیٹ کی گاڑی، قومی پرچم والی عمارت، عالی شان سرکاری بنگلے اور کشادہ دفتر کا راز پایا، اُن کے لئے بہت سی حیرتوں، حقائق اور انکشافات کا در بھی جیسے اچانک وا ہوگیا۔
وہ ساری باتیں جو ماضی میں بطور طالب علم این۔ایس۔ایف کے پلیٹ فارم پر پُرجوش لفظوں اور بامعنی نعروں میں کی جاتی تھیں، بے معنی سی ہو کر رہ گئیں۔ انسان کا وہ استحصال کہ جس پر بھوک ہڑتالی کیمپ لگتے اور خودسوزی کی دھمکیاں دی جاتی تھیں، اب اچانک بے کار اور احمقانہ سا لگنے لگا۔ ایک ”کیوں“ نے اُن کے اندر بھی سر اُٹھایا۔
”آخر لوگ اتنے جذباتی اور بے صبرے کیوں ہیں؟“
”کیوں منصب پر بیٹھے آدمی کو ہمیشہ غلط ہی تصور کیاجاتاہے؟“
”کیوں زمینی حقائق کھلی آنکھوں کے باوجود لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے؟“
”کیوں؟……آخرکیوں؟“
یہ وہی ’کیوں‘ تھا کہ جس کا جواب وہ کل تک لوگوں میں دلائل کے ساتھ دیتے نہ تھکتے تھے۔ وہ ساری باتیں جو اس ”کیوں“ کے جواب میں اُن کے قلم سے نکل کر مضامین اور کتابوں میں بند ہوئی تھیں، آج یوں چھپائے پھرتے تھے جیسے کوئی بیوروکریٹ اپنے دیہاتی ماں باپ کو چھپائے پھرتا ہے۔ پھر بھی کوئی سرپھرا منہ پھٹ اِن نظریات سے انحراف کا سبب پوچھ ہی لیتا تو پہلے تو ماضی کے اس قابلِ شرم عمل پر ان کا رنگ اُڑتا، پھر نہایت خوبصورتی سے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ پھیلتی اور آخر آدھے راستے میں ٹھُس ہو جانے والے پھیکے قہقہے کے بعد کہتے:
”چھوڑیئے صاحب!
آپ بھی کن زمانوں کی بے وقوفیوں کو لے بیٹھے۔ان دنوں نجانے کیا کیا الابلا پڑھتے اور لکھتے رہتے تھے۔ انقلابی کہلوانے یا کوئی منفرد بات کہنے اور کر گزرنے کی دُھن سوار رہتی تھی۔ عجب بچپنا اور ناپختگی کا عالم تھا، جب سوچ ابھی ترتیب پانے کے عمل سے گزر رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں کوئی بھی جذباتی بات، نعرہ یا اشتعال انگیز بیان اپنی جانب کھینچتا ہے اور انسان بنا سوچے سمجھےاس پر ایمان لے آتا ہے۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھوں تو صرف ہنسی آتی ہے۔ صرف ہنسی!“
ڈاکٹر حیدر کی سوچ میں یہ تبدیلی وقت کی طرح کوئی غیر محسوس عمل نہ تھا بلکہ یہ تو سکول میں بجنے والی اُس گھنٹی کی مانند تھی جو پہلے اور دوسرے پیریڈ میں ایک واضح حدِ فاصل کا اعلان کرتی ہے۔ اچانک آنے والی اس تبدیلی نے جہاں اُن کے عملی زندگی میں بظاہر ناکام مگر نظریاتی دوستوں کو چونکایا وہیں اُن کی بیگم بھی اس تبدیلی پر زیادہ خوش نہ تھیں۔
دوستوں سے تو خیر الگ ہونے اور ایک مناسب فاصلہ رکھنے کے لئے حیدر صاحب کو خود ہی یہ آسان حیلہ مل گیا کہ جس کسی نے ذرا بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بدلی ہوئی روش پر فقرہ کسنے کی کوشش کی،وہ فوراً یوں سیخ پا ہوئے کہ پھر باوجود معذرت کے اس کوتاہی کو معاف کرنے پر رضا مند نہ ہوئے، مگر بیوی کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ یہ بیوی اُن کی پچیس برس پرانی رفیق تو تھیں ہی تین بچوں کی ماں بھی تو تھیں۔ اور یہ تینوں بچے حیدر صاحب کی شاید واحد کمزوری تھے۔ بچے نہ صرف اس بات سے باخبر تھے بلکہ بدلے ہوئے ان حالات میں اُن کا جھکاؤ بھی اپنی ماں کی جانب تھا۔ یوں ایک اینٹی حیدرخاموش تحریک اُن کے اپنے گھر میں بھی جڑیں پکڑ چکی تھی۔
مسز حیدر کو افسوس تھا کہ وہ شخص جس نے تمام عمر انسانی استحصال کے خلاف آواز اُٹھائی، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور آمروں کے خلاف سچ بولنا سکھایا اور بعض اوقات اپنے شاگردوں میں مشکوک کر دینے والی محبت بانٹی، آجDo not disturb کی تختی لگائے، بالواسطہ فون، سیاہ شیشوں کی بند گاڑی، پرہیزی کھانے اور منرل واٹر کا ایسا رسیا ہوا کہ اپنے سبھی آدرش بھول گیا؟
آج کا ڈاکٹر حیدر انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر منعقد ہونے والی این۔جی اووز کی پرتعیش تقریبات میں چیف گیسٹ تو بن سکتا تھا مگر اُسے عملی طور پر اس تذلیل سے کوئی غرض نہ رہی تھی۔ اب آئے روز اخبارات میں چھپنے والی اپنی تصاویر، ہر محفل کی کرسیئ صدارت، فائیو سٹار ہوٹلز کے ڈائننگ رومز میں غربت دُور کرنے والی تجاویز پر اظہارِ خیال، سرکاری ائیرٹکٹس پر لمبی فلائٹس، دانستہ محفل میں دیر سے جانا اور جلد واپس آجانا اُسے مزہ دینے لگا تھا۔
نجانے کیا تھا کہ ایک عجیب طرح کی عُجلت، مختصر بات سننے کی عادت، دوحرفی گزارش اور کمپوزڈ بیان اُسے بھانے لگے تھے۔حالانکہ وہ تو شاگردوں سے گھنٹوں بامعنی ہی نہیں بے معنی اور لاحاصل موضوعات پر گفتگو کرتے بھی نہ تھکتا تھا۔ اِن گھنٹوں کی طویل اور بے معنی گفتگو کے بعد بھی اُس کے لہجے میں تھکاوٹ کے بجائے توانائی محسوس کی جا سکتی تھی۔ ایسی توانائی جو کسی حقیقی مسرت کی دین ہوتی ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ سوال کی عادت ڈالئے۔ سوال غیر متعلق ہی کیوں نہ ہو ایک اعتماد اور سیکھنے کی خُو پیدا کرتا ہے۔ احمقانہ سوال سوائے اُس کے کوئی نہیں ہو سکتا کہ جو پوچھا نہ جائے۔ وہ دانستہ اپنے لیکچرز میں سوال پر اُکسانے والے پہلو چھوڑتا چلا جاتا اورپھر اپنی اس خوبصورت شرارت کو پہچاننے والے طالب علموں کو تلاش کرنے لگتا۔ جو نہی کوئی ہاتھ سوال کو بلند ہوتا اُسے اُس شکاری کا سا اطمینان محسوس ہوتا جس کا نشانہ عین ہدف پر لگا ہو۔ پھر اس سوال کی تفہیم شروع ہوتی اور یہ پتہ ہی نہ چلتا کہ کب وہ اگلے پیریڈ کا بھی آدھا وقت لے چکا ہے۔
مگر آج وہی ڈاکٹر حیدر اتنا اختصار پسند ہو گیا تھا کہ اسے چائے کا پورا کپ اور طالب علم کا مکمل سوال بھی گراں گزرنے لگا تھا۔ کل تک جس کی پرسنل فوٹوالبم شاگردوں میں گھلتے ملتے، اُٹھتے بیٹھتے، گھومتے پھرتے اور اُن کی نجی خوشیوں میں بھی شرکت کی تصاویر سے بھری ہوئی تھی، آج ربن کاٹتی قینچیوں، نقاب کشائی کرتی تختیوں، اعلیٰ حکام کو کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتی فائلوں اور مختلف سرکاری و نیم سرکاری اداروں سے ملتے اعزازات کے خوش کن لمحوں سے سجتی جا رہی تھی۔
مگر یہ سب تصویر کا ایک رُخ تھا۔ معلوم رُخ۔ ایک دوسرا رُخ بھی توتھا جہاں شہر سے دور بستی کے سرکاری سکول کے ٹاٹ پر پیوند لگے کپڑوں میں ملبوس حیدری اپنی تختی لکھتا تھا اور اُسے اپنے باپ کو دی جانے والی نمبردار بہاول خاں کی وہ گالی کبھی نہ بھولتی تھی جو وہ بنا کسی وجہ کے یونہی زبان کراری کرنے اور اپنی حاکمیت کے احساس کی یقین دہانی کے لئے دیا کرتا تھا۔
”اوکر م داد دھی……حُقّہ گرم ہوا کہ نہیں؟“
اور اُس کا باپ جیسے اس دھی……کو اپنے نام ہی کا کوئی اعزازی حصہ سمجھتے ہوئے ہاتھ باندھ لیتا۔
”مجال ہے سائیں۔“
حیدری تختی پر گاچنی رگڑتے، موٹے کپڑے کالمبا بستہ گلے میں لٹکائے نہر کنارے چلتا جاتا اور سوچتا جاتا آخر یہ دھی۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوتا ہے؟
”ابّا یہ نمبردار تجھے دھی……کیوں کہتا ہے؟ تمہارا نام تو کرمو ہے تو پھر یہ دھی…… کا مطلب کیا ہے؟“
ایک روز اس نے غصّے سے باپ سے اس مخمصے کا حل جاننا چاہا جو بہت دنوں سے وہ حل نہ کر سکا تھا۔
”بس پُتر اس کا مطبل کچھ اچھا نہیں ہوتا۔ پر تو کیوں پوچھتا ہے؟“
”پتہ نہیں ابّا پر مجھے اچھا نہیں لگتا۔“
”اومیرا شیر! اتنی سی عمر میں ایسی باتیں نہیں سوچتے۔ تو پڑھ اور خوب محنت کر کہ کل کو حیدری دھی…… نہ کہلوائے بلکہ اُچا افسر بنے اور ”حیدرخان“ کہلوائے…… حیدرخان!“
”ڈاکٹر حیدر خان۔“
میز پر رکھے دعوت نامے پر مہمانِ خصوصی کے سامنے جلی حروف میں لکھا اپنا نام پڑھتے ہوئے ڈاکٹر حیدر کو جیسے باپ کی نصیحت یاد آگئی، جو اُس کی فطری ذہانت سے ملی تو وہ وظیفے لیتا اگلی سے اگلی جماعت میں پڑھتا چلا گیا۔
اس سے پہلے کہ اُسے باپ کی تذلیل کا شعور ہوتا باپ دنیا سے رخصت ہو گیا۔ نمبردار بھی کہیں مرکھپ گیا۔
حیدری کی بچپن سے یہ خواہش تھی کہ وہ پولیس کا کوئی افسر بنے۔ اس وقت جب اس کا باپ نمبردار کے ڈیرے پر جھاڑو پھیرے، چارپائیاں بچھائے حقّہ بخانے کی تیاری کررہا ہوتا اور اچانک علاقے کا S.H.O المعروف صاحب بہادر اپنی جیپ سے اُترتا تو نمبردار بھی ریشمی گاؤ تکیے کی ٹیک چھوڑتا تیزی سے چارپائی سے اُترتا اوربھاگ کر اُس کے استقبال کو جیپ کی طرف لپک جاتا۔ صاحب بہادر کی اس اچانک آمد پر اکیس توپوں کی سلامی وہ بھاری بھر کم دوچار گالیاں ہوتیں جو نمبردار بہاول خان کرم داد کو اُس انجانی سستی پر دیتا کہ جس کا علم کرم داد تو کیا خود نمبردار کو بھی نہ تھا۔ یہ موٹی موٹی قہقہوں میں ڈوبی گالیاں تیز دھار چھریوں کی طرح باپ کا ہاتھ بٹاتے حیدری کے دل میں پیوست ہو جاتیں اور اُس کا بدن خوف اور غصّے سے کانپنے لگتا۔
پھر یونہی صاحب بہادر کے خوشگوار مزاج کو تفریح کامزید سامان مہیا کرنے کی خاطر نمبردار ہنستے ہوئے کرم داد کو مخاطب کرتا:
”کرم داد دھی…… کیا خیال ہے مہمان خانے بھجواؤں تجھے صاحب بہادر کے ساتھ؟“
تھانے کا یہ نام خاص طور پر نمبردار نے اُن تمام کمّیوں کے لئے وضع کر رکھا تھا جو مطلوبہ نمک حلالی پر پورا نہیں اُترتے تھے۔
کرم داد جو اس لمحے زمین پر اکڑوں بیٹھا صاحب بہادر کے ہاتھ پیر دھلوانے میں مگن ہوتا خوف سے کانپ اُٹھتا اور پھر ایک شدید خوشامدانہ مسکراہٹ اُس کے چہرے پر پھیل جاتی۔ جیسے وہ یہ یقین چاہ رہا ہو کہ یہ بات نمبردار اُس سے محض مخول کی خاطر کر رہا ہے۔
”مالک ہو سائیں!“
اُس کی ہتھیلیاں جُڑ جاتیں۔
ہر بار دہرائے جانے والے اس معمول میں ایک مرتبہ اُس کے کانپتے ہاتھوں سے پانی کا مگہّ یوں پھسلا کہ پانی کے چند چھینٹے اُڑ کر صاحب بہادر کی پتلون پر گرے تو وہ ایک دم چونکے۔
”کرمو دیکھ تو سہی!“ 
صاحب بہادر کے منہ سے محض اتنا ہی نکلا تھا کہ نمبردار نے جیسے اس گستاخی کے فوری ازالے کے طور پر ایک زور دارٹھُڈّا وہیں چارپائی پر بیٹھے بیٹھے کرم داد کے منہ پر مارا اوروہ سنبھلتے سنبھلتے پیچھے جا گرا۔ اُس کی دونوں ٹانگیں فضامیں آدھی بلند ہوئیں اور دھوتی کے دونوں پلّو دائیں بائیں ایسے گرے کہ اس کی رانوں سے کولہوں تک بے ترتیب گھنے گچھّوں ایسے بالوں کا ایک کریہہ منظر آس پاس بیٹھے مہمانوں کے لئے کوئی پُر لطف لطیفہ بن گیا۔ ہنستے ہنستے اُن کے پیٹ دوہرے ہو گئے اور جب ذرا خاموش ہوئے تو دیکھا کہ کرم داد تیزی سے اپنی چادر سنبھالتا کچھ ایسے سرپٹ اپنے گھر کی جانب دوڑتا جا رہا تھا جیسے آج واقعی صاحب بہادر اُسے مہمان خانے لے جائیں گے۔ حیدری جواب تک خاموشی سے اس سارے منظر کو دیکھ رہا تھا، یوں باپ کے پیچھے دوڑا جیسے خوف سے بدکی کسی گائے کے پیچھے اس کا بچھڑا بھاگتا ہے۔ گھر پہنچنے پر چٹخنی چڑھائے کرم داد بہت دیر تک موٹی رضائی میں دبکا رہا، جیسے اُس پکار کو سننے سے ڈر رہا ہو جو ابھی کچھ ہی دیر میں ہتھکڑی تھامے دروازے کے باہر سپاہی دے گا۔
”کرمو دھی……چل تجھے بتائیں کہ پانی کہاں کہاں اور کیسے کیسے ڈالا جاتا ہے۔“
حیدری کے دل میں اُسی روز سے جہاں ان دو چیزوں یعنی جاگیر اور وردی سے نفرت پیدا ہوئی وہیں اس کے حصول کی ایک انجانی تڑپ بھی سرمارتی رہی۔ اُس کا جی چاہتا کہ وہ بھی کسی کرم داد دھی…… کو ٹھڈا مارے یا کوئی کرمو اُس کے پاؤں دھلواتا یونہی کمر کے بل جا گرے تو وہ اُس کی رانوں اور کولہوں پر الجھے ہوئے گھنے سیاہی مائل کریہہ منظر کو دیکھ کر ہنس سکے۔
لیکن شاید قسمت نے اُس کے لئے کچھ اور ہی منتخب کیا تھا۔ وہ گاؤں سے شہر آیا اور ٹیوشن پڑھاتا، پڑھتا پہلے سکول پھر کالج اور بالآخر یونیورسٹی میں بطور استاد تعینات ہوا۔ قابلیت تو اُسے فطرت کی طرف سے ودیعت کی گئی تھی۔ ماحول بھی نسبتاً بہتر ملا تو دنوں ہی میں اُس نے اپنا ایک حلقہ اثر بھی پیدا کر لیا۔ بطور طالب علم بھی انقلابی سوچ رکھتا تھا۔ اب بطور استاد بھی طبقاتی کشمکش اور انسانی استحصال پر مزاحمت کرتا دکھائی دیا اور شاگردوں ہی کے لئے نہیں دوستوں کے لئے بھی جیسے کوئی رول ماڈل بن گیا۔
آہستہ آہستہ وہ اپنے ماضی کی ہر شے جیسے کسی بند صندوق میں ڈال کر کسی گہرے دریا میں پھینک آیا مگر وہ نقوش کہ جو کرم داد نے بنا اجازت اپنے چہرے سے اُتار کر اُس کے چہرے پر جڑ دیئے تھے، وہ کیونکر فراموش کر سکتا تھا؟ 
ہاں جہاں تک ممکن تھا اس نے ان نقوش کو جدت ضرور بخشی۔ لیکن اب بھی کبھی کبھار اگر وہ چھٹی والے دن ان جدت بخشتے وسائل سے بے نیاز تہمد بنیان اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ اچانک سوتے سے اُٹھ کر آئینے کے سامنے آن کھڑا ہوتا تو ایک لمحے کو اُسے محسوس ہوتا جیسے آئینے کے اُس پار کھڑا کرم داد، اچانک ہاتھ باندھ کر کہے گا:
”مالک ہو سائیں۔“
ایک روز تو اُس میں ماضی میں از سرِ نو جھانکنے کی خواہش نے یوں سراُٹھایا کہ اس نے بیڈروم کی چٹخنی چڑھائی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھے بیڈ پر ٹانگیں اِدھر اُدھر پھیلائے اس طرح کمر کے بل گرا کہ سامنے آئنے میں اُسے وہ رانوں اور کولہوں پر اُگے سیاہ بالوں کا کریہہ منظر دیکھنے میں ذرا دُشواری پیش نہ آئی کہ جسے دیکھتے ہوئے صاحب بہادر اور نمبردار بہاول خان ہنستے ہنستے دوہرے ہو گئے تھے۔ پھر اچانک اسے اپنے اس احمقانہ فعل پر ندامت محسوس ہوئی تو وہ یکسر سنجیدہ ہو گیا۔
اب جب اُسے یونیورسٹی کا نیا وائس چانسلر منتخب کیا گیا تو اُسے اس کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں شاگردوں، مدّاحوں اور دوستوں کے مبارکباد کے فون، پھول اور کارڈز موصول ہوتے رہے۔ دعوتوں اور خوش آمدیدی تقریبات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا اور اسٹیٹس میں آنے والے اس یُوٹرن نے جیسے سیلف میڈ حیدر خان کو یہ پیغام بھی پہنچایا کہ جاؤ اب وہ منزل آگئی ہے جہاں تم اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا کا کچھ تو ازالہ کر سکتے ہو!
حیدری جن ناخنوں کو نمبردار بہاول خان کی انگلیوں سے کاٹنے میں ناکام رہا تھا، آج وہی ناخن جب اُس نے حیدرخان کی انگلیوں پر اُگے دیکھے تو اس پر ان کا عقدہ بھی کھل گیا۔ زندگی میں پہلی بار اس کے دماغ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ نمبردار شاید ٹھیک کرتا تھا۔ نمبردار کیا دنیا کے کسی بھی صاحبِ طاقت کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔
یہ نوکر پیشہ عام آدمی شاید نرمی کا حق دار ہی نہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے، بھلا کیا ضرورت ہے یونیورسٹی کے بجٹ پر بوجھ بنتے اس بے کار سٹاف کی؟ اور پھر اگلے ہی روز اپنے منصب اور آمد کی اطلاع یونیورسٹی کے بہت سے عارضی ملازمین کی برخواستگی کے نوٹیفیکیشن سے دی گئی۔ خوشامدیوں، اچھی خبریں سنانے والوں اور من بھائے لوگوں کا ایک مخصوص گروہ اس کے گرد بھی اکٹھا ہوا۔ کئی ایک مشاورتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور اچانک کئی انکشافات وقوع پذیر ہونے لگے۔ طلباء تنظیموں کی ہٹ دھرمیاں، اساتذہ یونین کی بے کار فرمائشیں اور اس نوع کے کئی انکشافات تو چند ہی روز میں اپنی اصلی صورت میں سامنے آگئے۔ باقی خارجی نوعیت کے مسائل، انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے مقاصد، سوشل ویلفیئر کے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی اہمیت، سیاسی سماجی حالات کی نئی توجیہات اور تاریخی شعور نے بھی جو نئی کروٹ لی تو یہ انکشاف بھی ہوا کہ بیضوی میز کے اِرد گرد منرل واٹر کی بوتلیں سجائے، ٹھنڈے یخ کمروں میں بیٹھنے والے یہ سرد مزاج لوگ تو ایک الگ ہی وژن رکھتے ہیں۔ ایسا وژن کہ جس تک عام آدمی کا دیگچی میں اُبلتے انڈے ایسا دماغ رسائی حاصل کر ہی نہیں سکتا۔ یہ سبھی گرمی، جنس اور معیشت کے ہاتھوں مفلوج ذہن بھلا معروضی تجزیئے اور زمینی حقائق کو سمجھنے کے اہل کیونکر ہو سکتے ہیں؟
اس نئے شعور کا نتیجہ تھا کہ اُسے اپنے ماضی پر عجب ملال سا رہنے لگا۔ وہ ماضی کہ جو اُس نے بے کار میں بائیں بازو اور دائیں بازو کی گردان رٹتے، فیض کی انقلابی شاعری پڑھتے اور چے گویرا کی تقاریر سنتے اور اُسے نقل کرتے گزار دیا۔ اب اُسے احساس ہوا کہ یہ انقلابی اور فکر انگیز مفکرین، شاعر اور سیاستدان تقلید کے لئے نہیں ہوتے بلکہ یہ تو وہ اسٹیٹس سمبلز(Status Symbols) ہیں جو
ایک خاص طبقے کی جمالیات کی غمازی کرتے ہیں۔ یہ سب ڈرائنگ رومز کی سجاوٹ اور خوبصورت بک شیلفوں میں سجائی جانے والی اشیاء ہیں۔ ہاں اگر وقت اور حالات اجازت دیں تو اِن لوگوں کے افکار، اقوال اور نظریات آپ کے باشعور اور دانشور ہونے کا ثبوت بھی فراہم کر سکتے ہیں۔
ایسے میں ایک نئے حیدر خان کا جنم ہوا۔ پچاس سالہ شیر خوار حیدر خان، جو سونے کا چمچ اگر ماں کے پیٹ سے لے کر نکلتا تو شاید اتنا خطرناک نہ ہوتا۔ مگر اب جب اُسے یہ چمچ چھیننے میں پچاس برس صرف کرنا پڑے،سرکاری دفاتر کے کلرکوں کو چائے پلوا پلوا کر وظیفے کی رقم نکلوانا پڑی، شہر میں اپنی بقاکی جنگ لڑنا پڑی، بڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے علم، دانشوری، چاپلوسی، خدمت، عقیدت اور اس نوع کے نجانے کتنے سہارے تلاش کرنا پڑے تو اُس کا خطرناک ہو جانا ایسا بعید بھی نہ تھا!
وہ جسے نوکری کے لئے عمر اور بیوی کے لئے شناخت بدلنی پڑے،بھلا نارمل بی ہیو (Behave)کیسے کر سکتا ہے؟
کرم داد دھی…… مر گیا مگراُس کے اس عکس، اس پینٹ کوٹ میں پھنسے نکٹائی لگائے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر انگریزی اخبار پڑھتے حیدری نے آج وہی پالیا کہ جس کے خلاف اُس کا دل نفرت سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے ماضی کی ہر ہر تلخ یاد سمیٹ کربند صندوق میں دریا برد کر دی مگر یہ چہرہ! یہ چہرہ جو اُس کی پرسنل الماری کی ایک تاریک دراز میں رکھی سر پر پگڑی اور کندھے پر صافہ ڈالے ایک شخص کی کلرڈ فوٹوسٹیٹ کاپی تھا،بھلا کیونکر بدلا جا سکتا تھا؟
کئی بار وہ سوچتا رہ جاتا کہ یہ چہرہ کیا اُس کے لئے کسی تفاخر کا سبب ہے کہ جس کی متانت، شوخی اور علم نے لوگوں کو سحر میں لے رکھا ہے یا محض اُسے اپنے ماضی کی تلخ یادوں کو ہر ہر لمحہ اپنے چہرے پر سجائے رکھنے کا وہ وسیلہ کہ جسے اچانک کسی میٹنگ ہال میں بیٹھا کوئی نمبردار بہاول خان پہچان کر کہے گا:
”کرم داد!…… اوکرم داد دھی…… تو یہ کیا بہروپیا بنا پھرتا ہے؟ اتنا عرصہ کہاں تھا؟ چل اُٹھ حقّہ بخا صاحب بہادر آنے والے ہیں۔“

Post a Comment