وقار زیدی
گل برسائے میں نے مِہر، وفائوں کے
اُس نے تیر چلائے جَور، جفائوں کے
دنیا کی دولت سے ہم کو غرض نہیں
طالب ہیں ہم صرف تمھاری دعا ئوں کے
راہِ طلب میں زخمی ہوں ، واری جائیں
پھول کھلیں یارب اپنی آشائوں کے 
قید ہیں میری آنکهوں میں اک مدت سے
دلکش دل کش منظر میرے گائوں کے
دل میں ہے میرے ٹم ٹم کرتا ایک چراغ 
رخ پهیرے اِس نے ہیں تند ہوائوں کے
سایہ دار درخت تهے ماں اور باپ مر ے
زندہ ہوں میں صدقے اُن کی دعائوں کے
اُس کی زلف نے مجهہ کو بهی زنجیر کیا
چُنگل سے نکلا ہے کون بلائوں کے
اپنی اَنا پہ تجهہ کو مان بہت تها وقار
لُوٹا کس نے بل بوتے پہ ادائوں کے

Post a Comment