دُکھ کی تفہیم ہے کیا درد کسے کہتے ہیں
پوچھو اُن سے جو شب و روز یہی سہتے ہیں
 ریگ صحرا میں بسیں پینے کو پانی نہ ملے
خواب میں دریا ہیں پینے کو پر ترستے ہیں
 فصل گُل آئے چمن لہکیں کھلیں گُل ہر سُو
ہیں قفس میں جو بہاروں کو نہیں تکتے ہیں
 بھری برسات میں بادل کا برسنا معمول
وسط صحرا میں بھی بادل کبھی برستے ہیں
چاند تاروں سے سجے عرش کا جادو کیسا
ہم زمیں زاد ہیں پر عرش کو سمجھتے ہیں
 ابن آدم ہوں مگر میرا مقدر انور
اب ملائک بھی نصیبوں پہ رشک کرتے ہیں


Post a Comment