کتنی مشکل ہے کسی شعر کی تحلیل نصیر
کتنی دشوار ہے احساس کی گیرائی بھی
یہ شعر ہے دبستان کراچی کے اساتذہ میں شامل استاد شاعر نصیر کوٹی کی کلیات،،انتخاب،،سے۔بنیادی طور پر یہ ان کے پہلے مجموعہِ کلام،،لذتِ آزار،، کی تیسری توسیعی شکل ہے۔
نصیر کوٹی کی غزل ان کے نقطہِ نظر کی عکاس  ہے۔ان کی غزل میں فکر و احساس کی گہرائی ہے اور فہم وبصیرت کی رعنائی بھی۔
،،انتخاب،،کی شاعری  روایت سے جڑی ہوئی ہے لیکن نصیر کوٹی آج کے دور میں رہ کر آج ہی کی غزل کہتے ہیں ایسی غزل جس میں زندہ ہونے اور زندہ رہنے کی ساری علامات اور سارے امکانات موجود ہیں۔غالب نے کہا تھا:۔
وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصِ لذتِ آزار دیکھ کر
نصیر کوٹی نے اس روایت کو،اس لذتِ آزار کو اپنے سینے سے لگا لیا اور سن1982 میں،،لذت آزار،، کے عنوان سیان کا پہلا مجموعہِ منظر عام پر آیا۔
نصیر کوٹی کی شاعری کا دوسرا نام محسوساتی، واقفیت اور جذباتی صداقت ہے اور اس واقفیت اور صاقت کے نشانات ان کی شاعری میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔
رجائیت نصیر کوٹی کی غزل گوئی کا اساسی تصور ہے۔ظلمت کے بعد روشنی اور شب کے بعد سحر کی بشارت، فرد کی بہتر تشکیل اور معاشرے کی خوب تر فکری اور عملی تزئین ان کا مقصودِ شعری ہے۔
بلا سے عہدِ بہاراں نے دل کو زخم دئیے
نصیر صورتِ گلزار تو نکھر آئی
اس گلستاں کو نکھارا ہے لہو سے ہم نے
جیتے جی اس پہ کوئی وار نہ ہونے دیں گے
اس جیسے بے شمار اشعار ان کے مجموعہِ شعری،، انتخاب،، میں بکھرے پڑے ہیں۔اقدار کی شکست و ریخت پر نوحہ خوانی کے ساتھ ساتھ اقدار کی بحالی کے لئے  کوشش نصیر کوٹی کا خاص فکری رویہ ہے کیونکہ ان کے نزدیک شاعر صرف معاشرے کا عکاس ہی نہیں، نقاد اور فکری رہبر بھی ہوتا ہے۔
نصیر کوٹی کی غزل کے غائر مطالعے سے ایک بات جو کھل کر سامنے آتی ہے وہ ہے شاعر کا قادرالکلام ہونا،مضمون کسی بھی نوعیت کا ہو جب استاد نصیر کوٹی کے شعر میں آتا ہے تو سبک خرام محبوب کی طرح، غمز ہ و عشوہِواوا کے جلو میں آتا ہے۔نصیر کوٹی نے اکثر جگہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑ کر شعر کا پیکر تراشا ہے اور یہ منبت کاری اس مہارت سے کی گئی ہے کہ چمنِ غزل کے پھول ہر آنکھ کو حسین اور شاداب دکھائی دیتے ہیں ان پھولوں میں محض غزل کے روایتی محبوب ہی کی مہک نہیں بلکہ شاعر کی ذات مین رچی بسی ہر لطیف کیفیت کے رنگ نظر آتے ہیں اور اس مشکل تکنیک کو آسانی اور کامیابی سے برتنا نصیر کوٹی کی بے پناہ تخلیقی قوت کا مظہر ہے۔
خدا کا شکر محبت میں کاٹ دی ہم نے
ہماری عمر کے دن رائیگاں نہیں گذرے
نصیر کوٹی ارتقائے شعور کو ارتقائے غزل کی بنیاد بناتے ہیں ان کے خیال میں کاکل و رخسار کا خیال باندھنا ہی غزل کا منصب نہیں بلکہ  شعورِ فکر کو جلا دینا غزل کا مقصود ہے۔
عظمتِ شعر و سخن کیا ہو نصیر
کس قدر عام ہے یہ فن دیکھو
ڈاکٹر فرمان فتحپوری لکھتے ہیں،،شعر گوئی اور قابلِ توجہ شعر گوئی کئی باتوں سے مشروط ہے۔ لفظوں کے برتنے کا سلیقہ اظہارِ خیال پر قدرت، جذبے کی سچائی،احساس کی ندرت اور فکرونظر کی وسعت ایسی باتیں  جنہیں قابلِ ذکر شعری تخلیق کے لئے بنیادی شرائط قرار دیا جا سکتا ہے اور انہیں سامنے رکھ کر شاعری کے معیاری یا نا معیاری ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے۔تاہم اس سلسلے میں دو شرطیں اور بھی ہیں ایک یہ کہ شاعر موزوں طبع ہو یعنی حروصوت کی نغمگی سے اس کے مزاج کوطبعی مناسبت ہو،دوسرے وہ مذاقِ سلیم اور ذہنِ شائستہ کا مالک ہو۔نصیر کوٹی کی موزونی طبع اور خوش ذوقی کی صورت یہ ہے کہ اولالذکر انہیں عطیۂ الہی کے طور پر میسر آئی ہے اور آخرالذکر یعنی ان کی خوش ذوقی  تا دیر شعری فضا اور ادبی ماحول میں تربیت پانے کا انعام ہے۔نصیر کوٹی نے اپنی شاعری میں نہ دور کی کوڑی لانے کی کوشش کی ہے اور نہ آسماں سے تارے توڑ لانے کا دعویٰ کیا ہے بلکہ ان کے مشاہدے اور تجربے میں جو کچھ آیا اسے جس طرح محسوس کیا اسے نہایت سلیقے سے ہمارے سامنے پیش کر دیا،، 
ڈاکٹر فرمان فتحپوری کے علاوہ احسان دانش،محشر بدایونی،ساقی جاوید،شور علیگ،ماہرالقادری،شاعر لکھنوی اور ڈاکٹر اسلم فرخی نے بھی ان کی عظمتِ قلم کو سراہا ہے۔
نصیر کوٹی  کا شعری،،انتخاب،، پڑھنے کے بعدیہ حرفِ معتبر حاصل ہوا کہ یہ سارے کا سارا مجموعہ شاعر کی ذات کا پرتو ہے،شاعر کی شخصیت، ان کی غزل میں ہر جگہ جلوہ فگن ہے،ان غزلوں کا مزاج نصیر کوٹی کی سادہ دلی کا عکاس ہے،ان غزلوں کی روح نصیر کوٹی کی فقیری کی تصویر اور ان غزلوں کی فکر نصیر کوٹی کی حق پرستی کی تفسیر ے،ان 
غزلوں کا لمس نصیرکوٹی کی فن سے محبت کے جذبے کا انعکاس ہے۔

Post a Comment