علامہ محمد اقبال نے عشق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا  ئے  لبِ بام ابھی
عشق میں عقل کا گذر نہیں ہوتا،محبت،عشق،چاہت ایک نازک اور غیر مرئی احساس کا نام ہے،اس خیال کے پیکر کو الفاظ میں ڈالنا اور تخلیقی لمس کے ساتھ منکشف کرنا معنی دارد۔نظم نگاروں کے لئے یہ خاصا مشکل کام ہے لیکن غزل وہ صنف ہے جس کی فضا،لفظیات اور ہیت، محبت اور عشق کی کیفیات بیاں کرنے کے لئے خاصی  موزوں ہے۔ علامہ اقبال تو قادرالکلام تھے وہ ایسا خیال آفرین شعر کہہ کرانسانی شعور کا ادراک کرا گئے۔ہمیں علامہ اقبال کا یہ شعر کراچی  کے شاعر کا مجموعہِ کلام پیکرِ خیال کا مطالعہ کرتے ہوئے یاد آ گیا کیوں کے اس کے خالق پروفیسر عبدالصمد نور سہارن پوری  جو اپنے نام کی قدامت کے برعکس ایک نوجوان  شاعر ہیں وہ اپنے مجموعہ،،پیکرِ خیال میں اپنی تازہ کاری 
کے ساتھ جدت پذیر ہیں۔

عشق کی تشریح کرتے ہوئے عبدالصمد نور لکھتے ہیں 
بادیہ پیما اگر ہو تو ہے مجنوں ترجماں 
دار تک پہنچے تو پھر منصور کہلاتا ہے عشق
جب بھی اپنے وصف کی تشریح فرماتا ہے عشق
مختلف اقسام کی تصویر بن جاتا ہے عشق
تیشہء فرہاد کی تفسیر جوئے شیر ہے
لیلیٰ و شیریں کی بھی تقدیر بن جاتا ہے عشق
انسان اور خالق کے مابین عشق جب عروج پر ہوتا ہے تو عقل محوِ تماشا رہ جاتی ہے اور عشق وجد میں آ جاتا ہے۔
ہوگی پیشانی  زمیں پر اور نگاہیں عرش پر
اس گھڑی ہوتا ہے جب خود وجد میں آتا ہے عشق
عشقِ حقیقی ہو یا عشقِ مجازی لفظ،عشق کی تعبیر دراصل محبت کے مختلف روپ ہیں  جو عبدالصمد نور کی شاعری سے آشکار ہیں جن سے  محبت آشنا ہر شخص کا پالا پڑتا ہے۔کبھی یوں ہوتا ہے کہ زندگی کے کسی حصے میں انسان کا کسی شخص سے معمولی سا تعلق،دل کی حساس پلیٹ پر دائمی نقوش  چھوڑ جاتا ہے۔عبدالصمد نور کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ احساس اپنے آپ کو محسوس کرانے لگتا ہے۔
ترے خیال نے آ کر اسے سکون بخشا
وگرنا یہ دل غمگین اداس رہتا تھا
وہم ہے یا ہے یہ تیری آہٹ
سن رہا ہوں  نئی نئی آہٹ
جس کو چاہا ہے ٹوٹ کر چاہا
کتنی معصوم ہے خطائے دل
اشک ہوتے ہیں آنکھ سے جاری
عشق کے زخم جب چھپائے دل
تری دوری نے مجھ کو اس قدر بے چین رکھا ہے
تجھے ہی یاد کرتا ہوں تجھے ہی سوچتا ہوں میں 
پیکرِ خیال کا دوسرا عنصر لاحاصلی کا شدید احساس ہے انسان عمر بھر خواہشوں کے پیچھے بھا بھاگتے عمر بتا دیتا ہے۔بے ثمری اور لاحاصلی انسان کا مقدر بن جاتا ہے
کبھی ہے آب کی قلت کبھی نایاب ہے دانہ
کبھی محروم ہونے کے سبب سے رو پڑا ہوں میں 
عبدالصمد نور کی اپنے اردگرد کے ماحول پر گہری نظر ہے اور کیوں نا ہو ایک حساس ادیب اپنے ارد گرد کے ماحول سے نظریں نہیں چرا سکتا۔نور کی یہ خاصیت دکھائی دیتی ہے کہ جو کچھ وہ دیکھتا ہے اسے بڑی سادگی سے بیان کر دیتا ہے۔ 
اک روز انقلاب کے موجب بنیں گے وہ
بچوں کو اپنے آج جو دفنا رہے ہیں لوگ
جب سے رازق بن گئے بے رحم دنیا کے امیر
خود کشی کرتے ہیں انساں بھوک ہے ایسا مرض
آج کے معاشرے کا عکس نما بنتے ہوئے عبدالصمد نور نے کیا حقیقت بیانی کی ہے کہتے ہیں 
توڑ دیں شیشے نہ ایوانوں کے یہ مفلس کہیں 
لرزاہ بر اندام ہے اس ڈر سے سلطانی روش
ہر نیا لکھنے والا مشقِ سخن کرتے ہوئے معروف شعرا کی زمینوں کو تختہِ مشق ضرور بناتا ہے،یہی احساس پیکرِ خیال کو پڑھتے ہوئے بھی ہوتا ہے لیکن پیکرِخیال کے خالق نے  معروف شعرا کو خود پر طاری نہیں ہونے دیا۔آخر میں پیکرِ خیال سے ایک شعرپڑھنے والوں کی سماعتوں کی نظر ہے۔
مربوط ہے انھیں سے ہر اک شعر کا جمال
الفاظ ہی تو اصل میں ہیں پیکرِ خیال

Post a Comment