ہر سال نومبر کے مہینے کے آخری دس دن میرے انتہائی کرب وملال میں گذرتے ہیں ان دس دنوں میں مجھے زیادہ سے زیادہ بابائے صحافت 
مولانا ظفر علی خان ؒکی قومی،ملی،اَدبی وصحافتی خدمات پر اُن کو   خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے شب و روز مصروف رہنا پڑتا ہے اور اس کام کے لئے مجھے مولانا ظفر علی خانؒ کی زندگی اور ان کے تخلیقی   کام کے بارے میں انتہائی جستجو سے ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے،اس ساری جستجو سے میرے سامنے مولانا کی زندگی کے نئے سے نئے باب کُھلتے چلے جاتے ہیں اور اس طرح میرے دکھ اور ملال میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے کہ ہم نے اردو ادب اور صحافت کی ایک بہت بڑی ہستی کی کوئی


قدر نہیں کی اور اُسے ایک عام سا ادیب اور صحافی سمجھ کر فراموش کردیا
شکیل قمر

 کاش ہم اس کوتاہی کے مرتکب نہ ہوئے ہوتے،حقیقت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریکِ پاکستان کے جلیل اُلقدرراہنما اور بابائے صحافت مولانا ظفرعلی خانؒ مرحوم ومغفور کو اسلامیانِ ہند اور بالخصوص پاکستانی قوم اُن کی بہترین مِلی اور قومی خدمات پر ہمیشہ خراجِ عقیدت پیش کرتی،
مگرایسا ہوا نہیں،آج  دنیائے اسلام اور خاص طور پر پاکستانی قوم میں ایسے لوگوں کی تعدادبہت کم رہ گئی ہے جو مولانا ظفر علی خانؒ  اور تحریکِ خلافت کے بے باک ترجمان   ًزمیندارً کی عظیم  قومی ومِلی خدمات سے واقٖٖٖف ہوں۔کچھ لوگوں نے تو صرف اُن کا نام ہی سُنا ہے اور نئی نسل کی اکٖثریت تو ایسی ہے جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ زمیندار ًکیا تھا‘  اُس نے قوم اور وطن کے لئے کیا خدمات  سر انچام دیں‘کیسی کیسی قربانیاں پیش کیں اور مولانا ظفرعلی خانؒنے تحریکِ پاکستان میں کیا کردار ادا کیا تھا۔کچھ لوگ جانتے بھی ہیں توصرف اِتنا کہ لاہور سے ”زمیندار“ نام کا ایک اخبار  نکلتا تھاجس کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خانؒ تھے اور اگر کچھ لوگ اِس سے  بھی زیادہ جانتے ہیں تو صرف اِتنا کہ وہ طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں سیاسی نظمیں  کہتے تھے یہ ہماری قومی زندگی کا ایک بہت بڑا المیہ ہے اور مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ صرف مولاناظفر علی خانؒ تک ہی محدود نہیں بلکہ نئی نسل اپنے بیشتر اکابرین کے بارے میں بے خبری اور لاعلمی کا شکا ہے قوم کے محسنوں،کاروانِ آزادی کے سالاروں اور پاکستان کے بانیوں کی ایک طویل فہرست ہے اِن میں وہ لوگ بھی  ہیں جنہوں نے ابتداء میں ہندوکانگریس کے ساتھ مل کر آزادئ وطن کی جدوجہد کا آغاز کیا لیکن بعد میں ہندو ذہنیت سے باخبر ہونے کے بعد اس پلیٹ فارم سے الگ ہوگئے اور اسلامیانِ ہند کی ڈگمگاتی ہوئی کشتی کو سہارا دیتے ہوئے ساحلِ مراد تک لے آئے اُنہوں نے ہر ایثارپیش کیا،ہر مشکل کے مقابلے میں آہني چٹان  کی طرح ڈٹ گئے آزادی ء وطن کے اِن روشن مناروں کا سلسلہ سلطان ٹیپوؒ شہید اور نواب سراج الدولہؒشہید سے شروع ہو کرنواب سلیم اللہ تک پہنچتا ہے پھر اِس میں بے شمار ایسی شخصیات کے نام لئے جاسکتے ہیں جن میں علی برادران یعنی مولانامحمدعلی جوہرؒ،مولانا شوکت علیؒ اور مولانا حسرت موہانیؒجوکسی  طرح  سے بھی شہدائے وطن سے کم نہ تھے، لیکن آج کی نئی نسل اِن کے بارے میں کیا جانتی ہے؟ ور ہم سب کس قدر اِن کی یاد مناتے ہیں اِس کا جواب بے
 حد مایوس کُن اور انتہائی افسوسناک ہے ایک زندہ قوم کے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے  محسنوں اور معماروں کو بھول جائے اپنی تاریخ کی ان عظیم اُلشان ہستیوں کی یاد تازہ رکھنے کی ذمہ داری عوام،قومی راہنماوں سیاسی پارٹیوں،محکمہ تعلیمات اور حکومت کے تمام ابلاغِ عامہ کے اداروں پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم قیامِ پاکستان کے بعد اس ملک کے قیام کی ساری داستان بھول گئے ہیں ہم اس ملک کے قیام سے پہلے کی وہ داستان بھی یاد نہ رکھ سکے جومسلمانانِ  برِصغیرکی قومی تاریخ کا ایک المناک باب ہے یہی وجہ ہے کہ قوم کے اصل محسنوں کے نام پسِ منظر میں جاچکے ہیں اور نئے لوگ قوم کے محسن اور راہنمابن کر بساطِ سیاست پر اُبھر آئے ہیں لیکن جن بزرگوں نے پاکستان کی عظیم جدوجہد کو دیکھا ہے ان کے ذہن ودل پر آج بھی وہی لوگ حکمران ہیں جن کی حکمرانی اقتدار کی مختاج نہیں تھی لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ یہ لوگ محض چند ذہنوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ضرورت تو اس امر کی تھی کہ سرکاری اور عوامی سطح سے مشتر کہ طور پران کے عظیم کارناموں،آزادیء وطن کے لئے ان کی بے مثال خدمات اور ان  کے ناقابل فراموش ایثار کی یاد  کو قوم کے لئے عزم وہمت کی ایک تابندہ مثال بناکر زندہ اور روشن رکھا جاتا لیکن  ہم نے اس سلسلے میں بہت ہی کوتاہی کی ہے اور اس لحاظ سے ہم اپنے وطن،اپنی تحریکِ آزادی،اپنے مقصدِ حیات اور مقصدِ قیامِ پاکستان سے غداری کے مرتکب  ہوئے ہیں آج تحریکِ آزادی کے عظیم بطل ِ جلیل مولانا ظفر علی خانؒ  مرحوم ومغفور کی یاد کو تازہ کرتے وقت ہمیں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے اور اِس امر کی بھی ضرورت در پیش ہے کہ ہم اپنے محسنوں کی زندگی کے ہر پہلو کا مطالعہ کریں اور اُن کی تابناک زندگی کے ہر  پہلو سے اچھی طرح واقفیت حاصل کریں اسی میں ہماری فلاح اور وطنِ عزیز کی بقاء مضمز ہے مولانا ظفر علی خانؒ نثر کے مردِمیدان،اقلیمِ شعروسخن کے تاجداربے باک صحافی  اور ایک مدبر سیاستدان تھے مولانا ظفر علی خانؒوزیرآباد کے ایک گاؤں ًمیر     ٹھ میں پیدا ہوئے ابتداء میں آپ کا نام خداداد رکھاگیا لیکن بعد میں ظفر علی خانؒ کے نام سے بدل دیا گیا      اُنہوں نے مشن اسکول وزیرآباد سے مڈل کا امتحان پاس کیا  اورایم اے او کالج علی گڑھ سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر کے محکمہ ڈاک وتار میں ملازم ہو گئے، ظفر علی خانؒ شروع ہی سے آزاد منش انسان تھے کچھ ہی روز بعد کسی افسرسے اُلجھ پڑے اور ملازمت ترک کرکے۳۹۸۱ء میں پھر علی گڑھ واپس آگئے اس عہد میں علی گڑھ علمی اور اَدبی فضاؤں میں رچی پسی ایک ایسی دنیا تھی جہاں مولانا شبلی نعمانی جیسی عہدآفریں شخصیت انجمن آراء تھی اُن کی صحبت میں رہ کر مولانا ظفر علی خانؒ کی فطری صلاحیتوں نے کچھ ایسی جلا پائی کہ ادبی زندگی نکھر آئی،مولاناظفر علی خانؒ نے ۵۹۸۱ء میں الاآباد یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور بمبءي چلے گئے وہاں نواب محسن الملک کے پرایؤیٹ سیکرٹری مقرر ہوئے ایک سال تک نواب صاحب کے ساتھ رہے پھر دولتِ آصفیہ کی معارف پروری کے چرچے سن کر دکن چلے گئے جہاں نواب افسرالملک کی ماتحتی میں جگہ مل گئی،پھر ہوم ڈیپارٹمنٹ میں مترجم مقرر ہوئے کچھ عر صہ اسسٹنٹ ہوم سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے اور کچھ دنوں آخری نظام دکن میر عثمان علی خان مرحوم کے اُستاد رہے،مولاناظفر علی خانؒ نے ملازمت کے دوران بمبءي سے رسالہ ً دکن ریویو ً نکالااورملازمت سے مستعفی ہونے کے بعد ۲۰۹۱ء میں حیدرآباد سے ماہنامہ ً افسانہً جاری کیا جس میں  ًمسٹریز آف دی کورٹ آف لندن  ً کا ترجمعہ ”اسرارِلندن ً کے عنوان سے قسط وار شائع ہوتا رہامولانا ظفر علی خانؒ کے والد مولوی سراج الدین نے سرکاری ملازمت سے پنشن کے بعدوزیرآباد سے ایک ویکلی اخبار  ًزمیندار ً  کے نام سے جاری کیا تھا ۹۰۹۱ء میں جب مولوی سراج الدین کا انتقال ہو گیا تو  ًزمیندار ً کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ مولانا ظفر علی خان پر آ پڑا  ًزمیندار ًکی باگ ڈور ہاتھ میں آتے ہی اُن کی جولانی ء طبع کے جوہر نکھر آئے پنجاب کے زمینداروں کاایک بہت بڑا طبقہ زمیندار ً کا ہم نوا بن گیا،۰۱۹۱ء میں مولانا ظفر علی خانؒ نے کرم آباد سے ایک ماہنامہ  ًپنجاب ریویوکے نام سے جاری کیا اورپھر ۱۱۹۱ء میں مولانا ظفر علی خان ؒ ویکلی  ًزمیندار ً  اور  ًپنجاب ریویو ً کو لے کر لاہور آگئے، لاہور میں سیخ عبدالقادر، منشی محمد دین فوق،علامہ اقبال،لالہ دیناناتھ اور دیگر بہت ہی اہم ادیبوں وشاعروں کی ایک جمی جمائی بساطِ ادب و صحافت ہاتھ آگئی،یہاں  ًزمیندار ً روزنامہ  ہو گیااورہندوستان کی سیاست میں پنجاب کو سر بلند کرنے لگا، مولانا ظفر علی خانؒ آزادیء تحریر و تقریر کے سب سے بڑے مجاہد تھے اِس سلسلے میں اُنہوں نے لندن کا سفر بھی کیا،کئی بار  ًزمیندار ً کی
ضمانت بھی ضبط ہوئی،یہاں تک کہ ۵۱۹۱ء کے آخرمیں  ًزمیندار ً کو بند کر دیاگیامارچ ۹۱۹۱ء میں لمحات ًکے نام سے مولانا نے ایک اور روزنامہ جاری کیا  پھر ً ستارہ  صبح  ًکے نام سے ایک اور روزنامہ جاری کیا ستارہ صبح   ً بند ہوا تو  ًآفتاب ً نکالا،وہ بھی بہت جلد بند کر دیا گیا  پھر دسمبر ۹۱۹۱ء میں پابندیاں اُٹھ جانے کے بعد دوبارہ  ًزمیندار ًجاری کیا  جو قیامِ پاکستان کے بعد تک جاری رہامولانا ظفر علی خانؒ  عملی صحافت سے ۰۵۹۱ء کے اوائل میں ہی دست بردار ہو گئے تھے اور  ًزمیندار ً کی ادارت اُنہوں نے اپنے صاحبزادے اخترعلی خان کے سپر د کر دی تھی، مولانا  خود علیل رہتے تھے،لیکن اس شدیدعلالت و نقاہت کے باوجود جولائی  سے اکتوبر۱۵۹۱ء کے چار ماہ کے دوران جبکہ ہندوستان کی فوجیں لاہور کی سر حد پر حملے کی نیت سے جمع ہو چکی تھیں مولانا نے اپنی قوم کو بیدار کرنے اور اِس کے جذبہء جہاد کو تازہ کرنے کے لئے اپنے قلم کو اُسی تابانی کے ساتھ استعمال کیا ،ان کے لہجے کی مخصوص کاٹ ایک بار پھر پوری جولانیوں کے ساتھ باطل کے خلاف رونما ہوئی  اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری قوم دشمن کے مقابلے کے لئے ایک آہني چٹان کی طرح ڈٹ گئی،غرض یہ کہ مولانا ظفرعلی خانؒ کی ساری زندگی ہنگامہ خیزیوں سے دوچاررہی،ہر اسلامی اور ملکی تحریک میں ایک مجاہدانہ عزم واستقلال کے ساتھ مصائب وآلام کا مقابلہ کرتے رہے،مولانا کو اپنے سیاسی اورمذہبی نظریات پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ کسی مخالفت کو کبھی برداشت نہ کرتے تھے،پاکستان کے قیام کے بعد مولاناظفرعلی خانؒجسمانی طورپر کافی کمزور ہو گئے تھے مگر ذہني طور پر تندرست وتوانا تھے، تراسی سال سے زیادہ عمر ہو چکی تھی بڑھاپے کی بیماریاں آئے دن گھیرے رہتی تھیں آخر۶۵۹۱ء کو نومبر کے مہینے کی ۷۲/ تاریخ کو صبح سویرے آپ عالم ِجاودانی کے راہی ہوئے (اِناللہ واِناالیہ راجعون)مولانا ظفرعلی خانؒ کے علمی،ادبی،صحافتی، شعری اور سیاسی کارنامے زندگی اور صحافت کی تاریخ بن سکتے ہیں اُنہوں نے اپنی زندگی میں بلا شبہ لاکھوں صفحات لکھے ہوں گئے جنہیں یکجا کیا جائے تو سینکڑوں کتابیں ترتیب دی جاسکتی ہیں مولانا ظفرعلی خانؒ کی نثری تصانیف میں ترجموں کوایک خاص اہمیت حاصل ہے جن میں  ًخیابانِ فارس  ً   ًمعرکہء مذہب وسا ئنس ً  ً جنگِ روس وجاپان بہرِظلمات ً  ًاسرار لندن ً  ًجنگل میں  منگل ً  ً علامہ جمال الدین افغانی  ً  ًملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر ً اور  ًمیری عینک ً بہت ہی مقبول ہیں مولانا کے ڈراموں اور افسانوں کا ایک مجموعہ ًمعاشرت  ً کے عنوان سے لاہور سے شائع ہوا ہے، مولانا ایک شعلہ بیاں مقرر تھے اُن کی تقریروں کا ایک مجموعہ  ًروح و معانی  ًکے عنوان سے  بھی شائع ہواہے، مولانا نے جنگِ ایران و روم کی روشنی میں سورہء روم کی ابتدائی آیات کی تفسیر بھی لکھی ہے جو ً غلبہ ِروم ً  کے عنوان سے شائع ہوئی ہے،مولانا کے ادبی،سیاسی اور تاریخی مضامین کا ایک مجموعہ ۰۲۹۱ء میں  ًلطائف ِادیب  ً کے عنوان سے  اور مقالات کا ایک مجموعہ  ًحقیقت و افسانہ ً کے عنوان سے بھی شائع ہو چکا ہے،مولانا کے صحافتی مضامین  ًحقائق ومعارف  ً  اور فکاہیہ مضامین  ًجواہرالادب ًکے عنوان سے بھی شائع ہو چکے ہیں مولانا ظفرعلی خانؒ نے مولانا شبلی نعمانیؒ کی ممتاز تصنیف  ًالفاروق ً کا انگریزی زبان میں ترجمعہ کیا،مولانا کی ایک کتاب  ًمقالاتِ ظفرعلی خان کے عنوان سے بھی شائع ہوئی ہے مولانا کے شعری مجموعے  ًشورِمحشر ً ً    ًبہارستان ً  ًنگارستان   ً  اور  ًچمنستان   ً کے عنوان سے شائع ہوئے اور ایک کتاب  ًارمغانِ  قادیان ً کے نام سے بھی شائع ہو چکی ہے۔ مولانا  ظفر علی خان ؒ کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت  علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں 
,,  ظفر علی خانؒکے قلم میں مصطفی کمال کی تلوار کا  با نک پن ہے اُنہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے  جھنجھوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ِایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولاناظفرعلی خانؒ نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن  اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برِصغیر کی تمام قومی اور ملکی تحریکیں ان  کے عزم وعمل کی رہینِ منت نظر آتی ہیں سیاسی و صحافتی شعروادب  توگویا اُنہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے۔

Post a Comment