ظفر اقبال
نمُود بھی نہیں کچھ ' نام بھی نہیں میرا
مقام ' خاص تو کیا ' عام بھی نہیں میرا
پَس ِ دریچہ ہے جو بھی ' نہیں ہے میرے لیے
وہ ماہ تاب ' لب ِ بام بھی نہیں میرا
فضول اُس سے تعلّق جَتاتا رہتا ہُوں 
جو دن کے وقت نہیں ' شام بھی نہیں میرا
قرار پایا ہے میری تباہیوں کا سبب
یہ تُو جو مُورد ِ اِلزام بھی نہیں میرا


اگرچہ مُفت میسّر نہیں ہُوں دُنیا کو
کہ اصل میں تو کوئی دام بھی نہیں میرا
اُٹھائی ہے جو مشقّت ' نہ جانے کس کی تھی
جو کر رہا ہُوں ' وہ آرام بھی نہیں میرا
جو کہہ رہا ہُوں ' کسی اَور کی ہے بات ' ظفر 
جو کر رہا ہُوں یہاں ' کام بھی نہیں میرا

Post a Comment