اعجاز گل
خرابی مُدّعا میں سب وضاحت سے ہوئی ہے
فضا انکار کی پیدا طوالت سے ہوئی ہے
خموشی تھی اُدھر جب تک کہاں میں بولتا تھا
مجھے جراؑت شکایت کی شکایت سے ہوئی ہے
خبر ہے غیبتِ دیگر ہے معمولاتِ دنیا
یہ بیزاری تو روزانہ سماعت سے ہوئی ہے
لکھا ہے داخلہ ممنوع دروازے پہ لیکن
کوئی آمد کہاں میری اجازت سے ہوئی ہے
نکالی اپنے اندر سے پہیلی نے پہیلی
سمجھ تازہ بجھارت کی بجھارت سے ہوئی ہے
چھپا تھا سطرِ مبہم میں معانی کا خزانہ
عیاں صدیوں کی دانائی کہاوت سے ہوئی ہے
نہ کار آمد رہی ہے گفتگوئے باالمشافہ
نہ کچھ امید افزائی وساطت سے ہوئی ہے
نہیں آئی قیامت بھی کہ حل ہوتا معمہ
نہ ظاہر بات ہی ردِّ قیامت سے ہوئی ہے
تدّبر اس میں شامل ہے کوئی کُن کے سوا بھی
یہ تعمیرِ جہاں ایسے مہارت سے ہوئی ہے
کرشمہ ایک عنصر کا نہیں ، تشکیل میری
کئی اجزا کی آپس میں شراکت سے ہوئی ہے

Post a Comment