انور زاہدی
رُت کو دیکھو بدل رہی ہے پھر
کس طرح لے مچل رہی ہے پھر
دیکھنا تو ہوا کے تیور تم
لہر سی چل رہی ہے پھر
صُبح کا سحر دلنشیں کتنا
جیسے مستی اُبل رہی ہے پھر
آرزووں کا پھیلا ساگر ہے
کوئی اُمید پل رہی ہے پھر 
دیپ روشن ہوئے مُنڈیروں پر
محفل شب اُجل رہی ہے پھر
شام کا اعتبار کیا انور
شام رات میں ڈھل رہی ہے پھر

Post a Comment