ایوب خاور
آ جائے نہ رات کشتیوں میں
پھینکو نہ چراغ پانیوں میں
اک چادر ِغم بدن پہ لے کر
پھرتا ہوں شدید سردیوں میں
دھاگوں کی طرح الجھ گیا ہے
اک شخص مِری برائیوں میں
اس شخص سے یوں ملا ہوں 'جیسے
گِر جائے ندی سمُندروں میں
لوہار کی بھٹّی ہے یہ دُنیا 
بندے ہیں عذاب کی رُتوں میں
اب اُن کے سرے کہاں ملیں گے
ٹوٹے ہیں جو خواب زلزلوں میں
موسِم پہ زوال آ رہا ہے
کِھلتے تھے گلاب کھڑکیوں میں
اندر تو ہے راج رَت جگوں کا
باہَر کی فَضا ہے آندھیوں میں
کُہرا سا بھرا ہوا ہے' خاور 
آنکھوں کے اداس جھونپڑوں میں 

Post a Comment