صبیحہ صبا
چہرے کا ہر کرب دکھائی دیتا ہے 
خاموشی کا شور سنائی دیتا ہے
اندھا راج نہ ڈھائے ظلم زمانے پر
دل میرا ہر روز دہائی دیتا ہے
پھر سمجھے گا کیا کھویا کیا پایا ہے
جو دنیا کے نام برائی دیتا ہے
کون مقابل ٹہرے گا کب ممکن ہے
بیدردی سے وقت جدائی دیتا ہے
تعبیریں تو الٹی بھی ہو سکتی ہیں 
سیدھا سا اک خواب دکھائی دیتا ہے
رنج و غم سے دل میرا بھر جاتا ہے
جہاں کہیں بھی ظلم دکھائی دیتا ہے
ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تو کیا ہوگا
لہجہ سب کا اور سنائی دیتا ہے

















Post a Comment