صبیحہ صبا
گردشِ ماہ و سال کا حسن و جمال زندگی
جیسے بھی جو گذار دے اُسکا کمال زندگی
کوئی ہماری راہ میں کانٹے اگر بچھا گیا
اپنی تو پھر گذر گئی گل کی مثال زندگی
اس کے ہیں دونوں ذائقے شیریں بھی اور تلخ بھی
خوشیوں کے ساتھ ساتھ ہے رنج و ملال زندگی
کیا کیا ہمیں برا لگا کیا کچھ ہمیں بھلا لگا
کوئی نہیں مگر رہی واقفِ حال زندگی
آتے ہیں اس کے فیصلے دھیرے سے سب کے سامنے
اپنی ادائے خاص سے چلتی ہے چال زندگی

مدت سے وہ اسی طرح حالتِ جنگ میں رہے
گردشِ ماہ و سال نے کر دی بحال زندگی؎
وہ جس کو دیکھ دیکھ کر ساری رتیں حسین لگیں 
میرا تو یہ خیال ہے اُس کا خیال زندگی



Post a Comment