سیما نقوی
رنج بڑھتا ہے سو یہ مسئلہ کم رکھتے ہیں
نہ ہمیں یاد وہ رکھتا ہے نہ ہم رکھتے ہیں
 صرف جلتا ہوا اک ہجر نہیں ان کا ملال
میرے خوابوں کے چراغ اور بھی غم  رکھتے ہیں
 عجز ایسا ہے در عشق پہ اے رعب جمال
ہم نظر کیا سر تسلیم بھی خم رکھتے ہیں
ہم گیا وقت سہی، پر ہمیں سایہ نہ کہو
ہم قدم ہو کہ نا ہو، نقش قدم  رکھتے ہیں
 موج در موج اترتا ہے شب ہجر کا چاند
ہم سمندر نہ سہی، دیدہ نم رکھتے ہیں


 چھوڑ کر دشت نوردی یہ مکاں ڈھونڈ لیا  
اب چلو گھر کو بسانے کا بھرم رکھتے ہیں
کب تلک اشک رواں درد بٹائیں میرا
یہ کہاں میری طرح پاس الم  رکھتے ہی
 وہ تو اک بار بھی وعدہ نہیں کر پائے وفا
ہم بھی اس بار نہ ملنے کی قسم رکھتے ہیں
 وصف اظہار کو آواز نہ مل پائ تو کیا
دست مصروف ہنر، لوح و قلم  رکھتے ہیں
ہم میں کچھ ایسی قناعت کی ہے خو بو سیما
کچھ بھی افراط سے ملتا ہے تو کم  رکھتے ہیں

Post a Comment