علی اصغر عباس
جادہء عشق راہِ طوری ہے
یہ محبت بھی رختِ نوری ہے
آپ کے ہاتھ سے ملے تو پھر
آبِ سادہ بھی مئے طہوری ہے
عالمِ کیف میں کیا ہر کام
لاشعوری بھی ہو،شعوری ہے
سرگرانی کو کیا سمجھتے ہو
یہ میاں حالتِ حضوری ہے
جامہء عشق ہے کڑکتی دھوپ
جس کو خورشید سے نہ دوری ہے



اتنا بحران ہے تکلم کا
ان کہی بات بھی ادھوری ہے
دوست جب تخلیے میں ملنا ہو
کیا بھلا روشنی ضروری ہے
آنکھ بھر وصل کی نہ مہلت دے
ہجر کا روگ سنگ چوری ہے
زیست کا ما حصل علی اصغر
ناشکیبائی،نا صبوری ہے

Post a Comment