نیلا رجسٹر ایک سحر ہے، اور یہ دنیا، جس میں آپ داخل ہونے کو ہیں، یا ہوگئے ہیں، اُس سحر کے سحر میں ہے۔
گھبرائیے نہیں۔ بلاشبہہ ہم ایک”کلیہ شکن“ مصنف کے، ایسے مصنف کے جو قاری کی تخیلاتی ترتیب کوتلپٹ کردیتا ہے، ملنے کو ہیں، مگر یہاں کلیے نہیں ٹوٹیں گے۔ سوال و جواب کا روایتی انداز برتا جائے گا، جس سے اگرچہ انٹرویو نگار، جو کہ میں ہوں، اوب چکا ہے، مگر ابلاغی نقطہئ نگاہ سے ہنوز کار آمد پاتا ہے۔
تو چلیں، کیفے غلام باغ میں چلتے ہیں، جس کے پہلومیں قدیم اور پراسرار کھنڈرات ہیں، اور جہاں اس سمے کبیر اور ڈاکٹر ایک پرپیچ، مگر تحیرخیز مکالمے کا آغاز کرنے کو ہیں کہ تخلیق کار، جسے ہم مرزا اطہر بیگ کے نام سے جانتے ہیں، ایسا ہی کرنے کا خواہش مند ہے۔


٭ جیون کتھا
مرزا اطہر بیگ 7 مارچ 1950 کو شیخوپورہ کے قصبے، شرق پور میں پیدا ہوئے۔ تدریس کے پیشے سے منسلک اُن کے والد، مرزا طاہر بیگ تصوف اور مذہب کے مضمون پر گہری گرفت رکھتے تھے۔ صاحبِ تصنیف تھے۔ 
شرق پور سے میٹرک کا مرحلہ طے کرنے کے بعد وہ لاہور چلے آئے، جہاں سے بی ایس سی کی سند حاصل کی۔ رائج نصاب میں سائنس کی بنیادی روح نہیں ملی، سو آرٹس کی جانب آگئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے فلسفے میں ماسٹرز کرنے کے بعد 1978 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک ہوگئے۔ 99ء تا 2010 ء گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں شعبہئ فلسفہ کے سربراہ رہے۔ ریٹائرمینٹ کے بعد دو برس اسی ادارے میں گزرے۔ آج کل کُلی توجہ تخلیق ادب پر مرکوز ہے۔ 
گھر کے علمی و ادبی ماحول نے کتابوں کی جانب دھکیلا، جو جلد اوڑھنا بچھونا بن گئیں۔ مطالعے کی پختہ عادت نے لکھنے کی جوت جگائی۔ آغاز کہانی سے ہوا۔ ”سو پہلا دن ہوا“ اولین افسانہ تھا، جو ”حلقہئ ارباب ذوق“ کے اجلاس میں پڑھا گیا۔ پھر ڈرامانگاری کی جانب متوجہ ہوئے۔ پنجابی ڈرامے ”بیلا“ سے اِس سلسلے کا آغاز ہوا۔ اُن کے قلم سے نکلے کھیل ”حصار“، ”دلدل“، ”دوسرا آسمان“، ”یہ آزاد لوگ“، ”گہرے پانی“ اور ”پاتال“ بہت مقبول ہوئے۔ طویل دورانیے کے ڈراموں میں ”کیٹ واک“، ”لفظ آئینہ“ اور ”دھند“ نمایاں ہیں۔ عبداللہ حسین کے افسانے ”نشیب“ کو بھی ڈرامے کے قالب میں ڈھال چکے ہیں۔
2006 میں، آٹھ سو سے زاید صفحات پر مشتمل اُن کا پہلا ناول ”غلام باغ“ منظرعام پر آیا، جس نے قارئین اور ناقدین، دونوں ہی کو اپنے حصار میں لے لیا۔ اِس انوکھے ناول کی اشاعت کو ”آگ کا دریا“ اور ”اداس نسلیں“ کے بعد اردو ناول کی تاریخ کا تیسرا بڑا واقعہ قرار دیا گیا۔ موضوعات کے تنوع کے ساتھ بیگ صاحب کا مزاح کو برتنے کا منفرد ڈھنگ بھی زیر بحث آیا۔ ناول کے تین ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ ”غلام باغ“ کے بعد اُن کے افسانوں کا مجموعہ ”بے افسانہ“ منظرعام پر آیا،جس میں وہ رائج کلیے توڑتے ہوئے نظر آئے۔ 2011 میں دوسرے ناول ”صفر سے ایک تک“ (سائبر اسپیس کے منشی کی سرگذشت) کی اشاعت ہوئی۔ ناقدین کے مطابق یہ پہلا موقع تھا، جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اثرات کو اردو ناول کا موضوع بنایا گیا۔
لکھاری کے لیے قاری ہونا شرط ہے، اور وہ اس سے ماورا نہیں۔ موریس بلانچو، سارتر، میلان کنڈا، دوستوفسکی، جمیز جوائس کے وہ مداح ہیں۔ اردو ادیبوں میں منٹو، عبداللہ حسین، محمد خالد اختر اور خالدہ حسین نے اُنھیں متوجہ کیا۔ ترک ادیب، اورخان پامک کو بھی سراہتے ہیں۔ چلیں، اب گفت گو شروع کرتے ہیں۔
اقبال: ”غلام باغ“ کے وسیلے ایک حیران کن دنیا تخلیق کرنے والا ادیب قارئین کے سامنے آیا۔ ناول مکمل کرنے کے بعد آپ خود کن تجربات سے گزرے؟ کیا یہ عمل اذیت ناک ثابت ہوا؟
بیگ صاحب: اذیت سے زیادہ یہ محرومی کا احساس تھا۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں اُس دنیا سے نکل گیا ہوں، جو برسوں تک میرے لیے شاید حقیقی دنیا سے زیادہ حقیقی بنی رہی۔ گو ”غلام باغ“ 2006 میں چھپا، مگر یہ 2001 میں مکمل ہوگیا تھا۔ کچھ وقت اُس کی اشاعت کی تگ و دو میں لگا۔ جب اس ناول پر کام شروع کیا تھا، اُس وقت میں ٹیلی ویژن کے لیے باقاعدگی سے ڈرامے لکھ رہا تھا۔ ناول لکھنے کی رفتار سست تھی، سو اسے مکمل کرنے کے لیے ڈرامانگاری سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اِس کا بڑا حصہ اگلے تین چار برس میں مکمل ہوا۔ 
اقبال: لکھتے سمے کئی جذباتی لمحے آئے ہوں گے؟
بیگ صاحب: جی ہاں، کئی لمحے آئے۔ یوں تو اگر میں اپنے روٹین کے تحریری عمل کا تجزیہ کروں، تو ہر رائٹنگ سیشن ایک پیچیدہ شعوری اور ہیجانی کیفیت طاری کرتا ہے، لیکن ناول کی متوازی دنیا میں رونما ہونے والے سنگین واقعات مجھے بہت متاثر کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی احساس آگے قاری تک منتقل ہوتا ہے، یا ہونا چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ غلام باغ خود کو دریافت کرنے کا وسیلہ بنا۔ 
اقبال: ناقدین ”غلام باغ“ کے مرکزی کردار کبیر مہدی کا شمار اردو ناول کے اہم ترین کرداروں میں کرتے ہیں۔ اس انتہائی حد تک زندہ کردار کا ماخذ کیا تھا؟ 
بیگ صاحب: ناول کے آغاز سے قبل کبیر کا کردار احساس کی سطح پر موجود تھا۔ ناول نگار ابتدا میں کردار کو محسوس کرتا ہے، وہ اُسے جانتا نہیں ہے۔ جاننے کا عمل لکھتے ہوئے شروع ہوتا ہے۔ کردار خود کو ظاہر کرتے ہیں، اور لکھاری ان کا پیچھا کرتا ہے۔ میرے کردار- مرکزی ہوں، یا ثانوی- سب تخیلاتی ہوتے ہیں۔ شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ میں نے حقیقی زندگی کی کسی شخصیت کو اپنے فکشن کا حصہ بنایا ہو۔ اور میرے ساتھ، کہیں لیں کہ ایک مسئلہ ہے کہ کردار- اہم ہو، یا غیر اہم- میرے پاس ہمیشہ اپنی مکمل شخصیت کے ساتھ آتا ہے۔ اس سے بعض اوقات مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، خصوصاً ڈرامے میں۔

اقبال: ”غلام باغ“ میں ایک خاص قسم کی دیوانگی اور پاگل پن ہے؟
بیگ صاحب: ہاں، دیوانگی ”غلام باغ“ کے بنیادی موضوعات میں سے ایک ہے۔ فلسفے کے طالب علم کی حیثیت سے بھی یہ موضوع مجھے بہت Fascinate کرتا ہے۔ ہمیشہ سے یہ احساس رہا ہے کہ فرزانگی اور دیوانگی میں بال برابر کا فرق ہے۔ دیوانگی کا موضوع ناول کے پلاٹ سے بھی متعلق تھا۔ اِس ناول میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اِس میں زبان کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ مجھے یہ محسوس ہورہا تھا کہ دیوانگی بڑی حد تک ایک لسانی مسئلہ ہے۔ جب ہمارے لسانی نظام میں کسی سطح پر بگاڑ پیدا ہوتا ہے، تب ہی دیوانگی کا اظہار ہوتا ہے۔ بہ ہرحال، یہ ایک علمی مسئلہ ہے، تو ناول کے کردار کئی بار اِس سطح پر آتے ہیں، جب دوران گفت گو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ کلام اُن کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ ہذیان کی سطح آجاتی ہے، مگر بات دیوانگی برائے دیوانگی پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہ وجود کی، انسان کے انسان سے تعلق کی ایک اور سطح تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ کبیر اور زہرہ کا تعلق، عورت مرد کے تعلق کی انتہائی شکل تک پہنچنے کی کوشش ہے، جہاں من و تو کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔ 
اقبال: ”غلام باغ“ ایک پُرپیچ ناول ہے۔ اِس میں تجریدی تجربات، فلسفیانہ فکر نظر آتی ہے۔ کیا توقع تھی کہ یہ مقبولیت کی اِس اوج کو پہنچے گا؟
بیگ صاحب: یہ ردعمل میرے لیے خاصا غیرمتوقع تھا۔ خیال یہی تھا کہ سنجیدہ قارئین ہی اِسے پڑھیں گے۔ ہاں، اِسے لکھتے ہوئے میں نے اپنے سامنے ایک چیلنج ضرور رکھا تھا کہ اِس میں مطالعیت کے عنصر کا خیال رکھنا ہے، اپنی تکنیک یا احساس کی قربانی دیے بغیر۔ اور قارئین کے ردعمل سے مجھے احساس ہوا کہ میں کام یاب رہا ہوں۔ ہر سطح کے قارئین نے خود کو، کسی نہ کسی طرح پر اِس سے جُڑا ہوا محسوس کیا۔ ناقدین نے بھی اِسے پسند کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اِسے پڑھنے میں دقت کی شکایت کی، یہ وہ لوگ تھے، جو خود بھی ادیب ہیں۔ ہمارے ہاں ادیب، بہ طور قاری سنگین ادبی بددیانتی کا شکار ہیں۔ خیر، ایک یہ ایک الگ موضوع ہے۔ مجھے خالص قاری کی جانب سے بہت ہی اچھا ردعمل ملا۔ تین ایڈیشن آچکے ہیں، چوتھا بھی جلد آنے والا ہے۔

اقبال: کچھ عرصے قبل آپ نے ”غلام باغ“ کو انگریزی کے قالب میں ڈھالنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا؟
بیگ صاحب: اِس کا ترجمہ میں کر چکا ہوں۔ پہلا ڈرافٹ تیار ہے۔ مگر اِس کے لیے پروفیشنل ایڈیٹنگ کی ضرورت ہے۔ دیکھیں اِس کا کیا بنتا ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ بین الاقوامی پبلشرز کو ڈھونڈنے کے بجائے یہیں کے کسی پبلشر سے شایع کروا لوں۔ آخر یہاں بھی انگریزی میں کتابیں شایع ہوتی ہیں۔ اور فکشن کی عالمی منڈی میرے لیے کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔
اقبال: ”غلام باغ“ اور کبیر مہدی موضوع بنیں، اور نیلے رجسٹر کی بات نہ ہو، یہ کیوں کر ممکن ہے۔ وہ لگ بھگ ناول کا کردار ہی تھا۔ اُس کی بابت کچھ فرمائیں؟
بیگ صاحب: نیلا رجسٹر کبیر کے ذاتی احساسات و خیالات پر مشتمل ہے، جسے وہ بک بک کہتا ہے۔ کبیر ایک ناکام لکھاری ہے، اور یہ احساس جب اُس کے لیے عذاب بن جاتا ہے، تو ایک سطح پر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ جو بھی بکواس میرے ذہن میں آرہی ہے، اُسے لکھتا چلا جاؤں کہ چلو بک بک ہی ایک صنف ادب بن جائے۔ میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں، جب میں نے فیصلہ کیا کہ کبیر کی تحریری بکواس ناول میں آنی چاہیے، تب ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ قاری اس میں دل چسپی کیوں لے گا۔ کرافٹ کے لحاظ سے یہ مشکل مرحلہ تھا۔ پھر اس کا حل یہ نکالا کہ ناول کے واقعات ہی کسی طرح نیلے رجسٹر میں آگے بڑھنے چاہییں۔ اب اگر آپ نیلے رجسٹر کو دیکھیں، تو اس میں بک بک کے ساتھ واقعات کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ یوں قاری کے لیے گہری دل چسپی کا پہلو نکل آتا ہے۔ واقعات آگے بڑھتے ہیں، کبیر کے مسائل بھی ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔
اقبال: سنا ہے، آپ کے قارئین بھی نیلے رجسٹر کے سحر میں آگئے تھے؟
بیگ صاحب: (ہنستے ہوئے) جی ہاں، یہ ایک دل چسپ واقعہ ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں تو پورا ایک غلام باغ گروپ بن گیا تھا۔ اُس کے ارکان نے ناول کے کردار اپنا لیے تھے، اُن کا نیلا رجسٹر بھی تھا۔ اب تو وہ گروپ ختم ہوگیا ہے، لیکن غلام باغ نے کئی سطحوں پر اُن کی زندگی کو متاثر ضرور کیا۔ اِس طرح کے اور بھی واقعات پیش آئے۔ مثلاً ایک صاحب کا فون آیا، اُنھوں نے کہا، میں نے نیلے رجسٹر کی طرز پر اپنا عنابی رجسٹر شروع کر دیا ہے۔ 
اقبال: اپنے طویل افسانے ”بے افسانہ“ میں آپ نثر کے بنیادی کلیے توڑتے نظر آئے، جس کی ایک جھلک ہم ”غلام باغ“ میں بھی دیکھ چکے تھے۔ اِس ”کلیہ شکنی“ کی عادت کا کوئی خاص سبب؟
بیگ صاحب: میں یہ عزم لے کر نہیں لکھتا کہ مجھے کلیے توڑنے ہیں۔ جو بھی موضوع میرے سامنے آتا ہے، وہ خود اپنی ساخت اور ہیئت کا انتخاب کرتا ہے۔ ”بے افسانہ“ میرے پسندیدہ افسانہ ہے۔ میرے ذہن میں خیال تھا کہ لکھتے ہوئے خیال کی مناسبت سے ہمیں ایک لفظ سُوجھتا ہے، تو ہم رکتے ہیں، اور اُس کے متبادلات کے طور پر کئی الفاظ سوچتے ہیں، جن سے ایک چن کر ہم فقرے مکمل کرتے ہیں۔ میرے ذہن میں آیا، کیوں نہ ایسا تجربہ کیا جائے، جہاں منتخب کردہ لفظ کے ساتھ اُس کے متبادلات بھی سامنے آئیں، قاری نئے تجربات سے گزرے۔ یہ فلسفے کی سطح پر، ایک لحاظ سے Deconstruction کی شکل بھی ہے۔ البتہ اس میں ایک اسٹوری لائن موجود ہے، جو بیانیے کے تسلسل اور اس کی گرفت قائم رکھتی ہے۔ اس میں مزاح کا پہلو بھی مطالعیت کو قوت دیتا ہے۔ 
اقبال:جی بالکل، بات ”غلام باغ“ کی ہو، یا ”بے افسانہ“ کی، ہمیں آپ کے ہاں ایک خاص نوع کا مزاح ملتا ہے؟
بیگ صاحب: یہ ایک شعوری کوشش تھی۔ مزاح کہہ لیں، یا Wit کہہ لیں، میں اِس کا بہ طور آلہ، لٹریری ڈیوائس یا Motiveکے طور پر استعمال کرتا ہوں۔ ایک ایسے طریقہئ کار کے طور پر جو مزاحیہ ہے، لیکن اُس کے مقاصد انتہائی سنجیدہ ہیں۔ میں نے تو اِسے طلسماتی حقیقت نگاری کے مقابلے میں مزاحیہ حقیقت نگاری یا ”کومک رئیل ازم“ کا نام بھی دے دیا تھا۔ یونہی ایک کھلنڈرے انداز میں، مگر یہ Click کر گیا۔ اجمل کمال نے فکشن میں میرے مزاح کے استعمال کے طریقہ کا ذکرکیا۔ دیگر نے اس کی جانب اشارہ کیا۔ تو مجھے خوشی ہے کہ اِسے شناخت اور قبول کیا گیا۔ 
اقبال: ”سائبر اسپیس کے منشی کی سرگذشت“ بیان کرنے کا خیال کیوں کر سوجھا؟ کیا 9/11 کا سانحہ اِس کا سبب بنا؟
بیگ صاحب: 9/11 کا حوالہ اُس میں ضرور آتا ہے، لیکن وہ بنیادی موضوع نہیں۔ اُس کا اصل موضوع کمپیوٹرائزیشن یا ڈیجیٹل انقلاب تھا، جس نے ہمارے معاشرے پر بھی گہرے اثرات مرتب کرنے شروع کر دیے ہیں۔ میرے سامنے سوال تھا کہ جو سائبراسپیس کی دنیا بنی ہے، وہ ہمارے روایتی تصورات، جاگیرداروں اور نام نہاد دانش وَروں پر کس طرح اثر انداز ہورہی ہے۔ آپ نے دیکھا، جب مرکزی کردار، ذکی کے وسیلے کمپیوٹر درمیان میں آجاتا ہے، تو اسٹیک ہولڈرز کا رویہ کس طرح تبدیل ہوتا ہے۔ اور دوسری سطح پر ایک کہانی چلتی ہے، جس میں ذکی کا ایک پاکستانی نژاد فرانسیسی لڑکی سے تعلق قائم ہوتا ہے، جس کے وسیلے دہشت گردی اور 9/11 کو موضوع بنایا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ موضوع کے اعتبار سے یہ ناول لمحہئ حال کی دنیا کی، غیرمعمولی دنیا کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اقبال: تجربات آپ کی تخلیقات، خصوصاً ناولز کا بنیادی حوالہ ہیں، اِس کا کوئی خاص سبب؟
بیگ صاحب: میرے نزدیک تجربہ، ناول کی فطرت میں شامل ہے۔ اگر اِس میں تجربات نہیں ہیں، تو یہ پاپولر ناول تو ہوسکتا ہے، مگر ادبی ناول نہیں ہوگا۔ ادبی ناول میں کسی نہ کسی سطح پر تجربہ ضرور ہوتا ہے۔ یہ حیرت انگیز صنفِ ادب ہے۔ یہاں امکانات لامحدود ہیں۔ اِس میں کمال ہے کہ تغیر کو گرفت میں لانے کے لیے خود تغیر سے گزرتا ہے۔ تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ Novel is a discourse of flux, while being a part of flux.
اقبال: آپ کا تیسرے ناول”حسن کی صورت حال: خالی جگہیں پر کرو“ بھی اشاعت کے قریب ہے؟
بیگ صاحب: جی ہاں، یہ ناول اپریل میں شایع ہوگا۔ اِس میں مَیں نے نئی طرح کے تجربات کیے ہیں۔ ناول میں اس بنیادی منتشر بصری، شعوری اور لاشعوری تجربے کو گرفت میں لینے - کہہ لیں Novelize کرنے- کی کوشش کی ہے، جو نہ صرف ادب، بلکہ سائنس اور فلسفے کا بھی نقطہئ آغاز ہے۔ موضوع اور کرافٹ کے لحاظ سے یہ ناول بہت Ambitious ہے۔ اس میں میں نے کچھ دوسرے Narratives، مثلاً فلم اسکرپٹ، اسکرین پلے کو بھی استعمال کیا ہے۔ (نوٹ: یہ انٹرویو”حسن کی صورت حال“کی اشاعت سے قبل کیا گیا تھا۔)
اقبال: ایک جانب آپ کی تخلیقات کا معیار، دوسرا جانب ادب کے زوال کا گریہ۔ کیا ادب واقعی روبہ زوال ہے؟
بیگ صاحب: کچھ فقرے ہمارے ہیں چل پڑے ہیں۔ ہر کوئی اُنھیں دہراتا ہے، اور یہ کلیشے بن جاتے ہیں۔ ادب روبہ زوال ہے، یہ بھی ایک ایسی ہی بات ہے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ دیکھو، میرے ناولوں میں تو ایسی کوئی بات نہیں۔ میں سمجھتا ہوں، یہ بات کہنے والوں کے پیش نظر مجموعی صورت حال ہوتی ہے۔ شاید کسی سطح پر یہ بات دُرست بھی ہو۔
اقبال: اردو ناول کو آپ کہاں دیکھتے ہیں؟
بیگ صاحب: ناول کی صنف یورپ سے آئی ہے۔ شروع میں جو ناول لکھے گئے، وہ ایک حد تک سپاٹ تھے۔ یہ ٹو ڈائی مینشنل ناول تھے۔ ان میں گہرائی کی تیسری ڈائی مینشن نہیں تھی۔ قرۃ العین کے آمد کے بعد یہ ڈائی مینشن ہمیں نظر آئی۔ بیرونی دنیا میں ناول کے میدان میں بہت تجربات ہوئے، مگر ہم اردو ناول کی بات کریں، تو میں کہوں گا کہ ہمارے ہاں فوٹو گرافکس تو بنائے گئے، مگر ایکس ریز نہیں بنائے۔ ناول ملٹی ڈائی مینشنل ہوتا ہے، یا ہو سکتاہے۔ 
اقبال: تو کیا اردو ناول میں اِس نوع کے تجربات نہیں ہوئے؟
بیگ صاحب: شاید ہوئے ہوں، میرے نظر نہیں گزرے۔ شاید اُن کی تعداد بہت کم ہو۔
اقبال: انور سجاد کے ناول ”خوشیوں کا باغ“ کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟
بیگ صاحب: ہاں، ”خوشیوں کا باغ“ ایک جرات مندانہ تجربہ تھا۔ میں نے اُس زمانے میں اس پر ایک مضمون بھی لکھا تھا۔ 
اقبال: ہمیں تارڑ صاحب کے ناول ”بہاؤ“ میں بھی ایک بڑا تجربہ ملتا ہے؟
بیگ صاحب: ہاں، وہ تجربہ شاید کرافٹ کے حوالے سے نہ ہو، مگر موضوع کے اعتبار سے، زبان کے اعتبار سے وہ اچھا ناول ہے۔
اقبال: اردو ادب کو آج جن مسائل کا سامنا ہے، آپ کے نزدیک اُن کی کیا وجوہات ہیں؟ 
بیگ صاحب: میں سمجھتا ہوں کہ اردو ادب کے موجودہ مسائل کی وجوہات میں، سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ناول کی تنقید نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئی بڑا نام نظر نہیں آتا، جو ناول کی Creative discourse پر کام کر رہا ہوں۔ یورپ میں ناول کی تنقید اُن کے فلسفیانہ نظام سے جنم لے رہی ہے۔ یہ ایک اہم موضوع ہے، جس پر ہمیں سنجیدگی سے تفصیلی بات کرنی ہوگی۔
اقبال: آپ نظریے اور مقصدیت کو تخلیق ادب میں کس حد ضروری خیال کرتے ہیں؟
بیگ صاحب: ایک زمانہ تھا، جب نظریات اور Ideologies کے لیے ادب تخلیق کیا جاتا تھا۔ مارکسی روایات تھیں، ترقی پسند تحریک تھی، مذہبی Ideologies تھیں، لیکن میں اِس کا قائل نہیں۔ میرے لیے تو یہ ناممکن عمل ہے کہ کسی سوچے سمجھے نظام کو حقیقت ثابت کرنے کے لیے ادب تخلیق کیا جائے۔
اقبال: تو آپ ادب کو نظریے پر مقدم خیال کرتے ہیں؟
بیگ صاحب: ہر قسم کے ادب میں کوئی نہ کوئی نظریہ ضرور ہوتا ہے، جسے آپ ادیب کا نقطہئ نظر یا ویژن بھی کہہ سکتے ہیں، مگر اِسے تخلیق پر فوقیت دینے کا میں قائل نہیں۔
اقبال: آپ کے افسانوں اور ناولز میں، ایک خاص سطح پر، طاقت وَر اور کم زور کی تفریق نظر آتی ہے، ظلم کرنے والوں اور ظلم سہنے والوں سے سامنا ہوتا ہے۔ کیا اِس زاویہئ اظہار کی جڑیں ترقی پسند فکر میں پیوست ہیں؟
بیگ صاحب: نہیں، کوئی شعوری وابستگی نہیں، مگر ظلم کی کون مخالفت نہیں کرے گا؟ ظالم کی کون حمایت کرے گا؟ ”غلام باغ“ کا ایک بڑا موضوع انسان کی انسان پر، قوموں کی قوموں پر اور نسلوں کی نسلوں پر غلبہ پانے کی خواہش ہے۔ غلبے کی بات ہوگی، توPower relations موضوع بنیں گے۔ جو نکتہ آپ نے اٹھایا، اِس کا تعلق براہ راست انسانیت سے ہے، کسی تحریک سے تعلق نہیں۔
اقبال: آپ فلسفے کے استاد ہیں، اِس زاویہئ نگاہ سے دور جدید میں مسلم دنیا کو کہاں دیکھتے ہیں؟ 
بیگ صاحب: مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنا نظریہئ علم نہیں بنا سکے۔ مغربی علوم اور جدیدیت سے اُن کا تعلق بھی بہت پریشان کُن ہے۔ نہ تو وہ اِسے پوری طرح قبول کرتے ہیں، نہ ہی پوری طرح رد کرتے ہیں۔ کہنے کی حد تک تو کائنات پر غورو فکر کو ضروری قرار دیا جاتا ہے، مگر یہ کام کرتا کوئی نہیں۔ اِس کی وجہ سے ہمارے تخلیقی دھارے - یہاں میں آرٹ اور لٹریچر کی نہیں، بلکہ سائنس اور فلسفے کی بات کررہا ہوں - خشک اور بنجر ہوچکے ہیں۔ ہمارا Word (لفظ) اور World (دنیا) کے درمیان رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے شناخت کا مسئلہ بحرانی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اِسی بحران نے دہشت گردی کو جنم دیا ہے۔ جب آپ کے گرد دائرہ بن جاتا ہے، آپ پھنس جاتے ہیں، تب آپ پُرتشدد ہوجاتے ہیں۔ یہی آج ہورہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم دنیا کا موجودہ فکری بحران، بنیادی طور پر ایک فلسفیانہ بحران ہے۔
اقبال: آپ نے ڈرامے بھی لکھے۔ یہ عام خیال ہے کہ ڈرامے کی زندگی مختصر ہوتی ہے، کیا اِس بات سے متفق ہیں؟
بیگ صاحب: یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دیکھیں، ڈرامے یا فلم کے اسکرپٹس کی کتابی شکل میں کوئی ادبی حیثیت نہیں۔ وہ چھپنے کے لیے نہیں لکھے جاتے۔ ہاں، جو ڈراما ادبی حیثیت حاصل کرتا ہے، وہ تھیڑ ہے یا اسٹیج پر پیش کیا جانے والا ڈراما ہے۔ جو سیریل اور ڈرامے میں نے لکھے، اُن کے اسکرپٹس صندوق میں پڑے ہیں۔ اُنھیں چھاپنے کا کوئی خاص ارادہ نہیں۔ ہاں، میں مستقبل میں اسٹیج ڈرامے کے میدان میں کام کرنے کا ارادہ ضرور رکھتا ہوں۔
اقبال: ناول نگاری کے نفسیاتی عمل کو ہر تخلیق کار اپنے ڈھب پر بیان کرتا ہے، آپ کے نزدیک یہ کس قسم کا سفر ہے؟
بیگ صاحب: ناول نگاری ایک متوازی دنیا میں زندہ رہنے کا نام ہے۔ ایسی دنیا جو ہر لمحے ساتھ ساتھ چلتی ہے، جب اِس دنیا میں کوئی واقعہ ہوتا ہے، تو اُس کی بازگشت آپ کی تحریروں میں سنائی جاتی ہے۔ ایک سطح پر یہ تنہائی کا سفر ہے۔ جب ناول مکمل ہوجاتا ہے، تو ناول نگار کو خلا محسوس ہوتا ہے۔ وہ دنیا ختم ہوجاتی ہے، جو آپ کے تخیل میں آباد تھی۔
اقبال: آپ نے کہا کہ ناول نگاری ایک نئی دنیا تخلیق کرنے جیسا عمل ہے۔ یہ دنیا، اُس دنیا سے، جس میں ادیب سانس لیتا ہے، کس حد تک مختلف، کس حد تک مشابہہ ہوتی ہے؟
بیگ صاحب: وہ حقیقی دنیا سے پوری طرح تو مشابہہ نہیں ہوتی، مگر اُس کے بنیادی عناصر وہیں سے آتے ہیں، مگر اِس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ ناول نگاری کا عمل آپ کو اتنی آزادی دیتا ہے کہ آپ ایک الگ دنیا تخلیق کرسکیں، جس کے اپنے اصول ہوں، اپنی منطق ہو۔ حقیقت نگاری کے تحت لکھتے ہوئے ادیب کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ قاری کے سامنے حقیقی دنیا کی منظر کشی کرے، مگر یہ تخلیق ادب کی سطح پر فقط ایک ”فیصلہ“ہے۔ اب لاطینی امریکا میں میجک رئیل ازم ہے۔ اس سے پہلے سیرئیل ازم تھا، ڈاڈا ازم تھا۔ یہ سب حقیقت سے پرے ہیں، مگر اُن کی ادبی حیثیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ”حقیقت“ - اجازت دیں تو کہوں، نام نہاد حقیقت - فکشن کا محض ایک امکان ہے، جیسے ”ایک اچھی کہانی“ دوسرا امکان ہے۔
اقبال: کیا ادب تبدیلی کا آلہ کار بن سکتا ہے؟
بیگ صاحب: میں رائٹر کو ایک مُصلح کے روپ میں تو نہیں دیکھتا۔ البتہ ادب انسانی شعور اجاگر ضرور کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کا توجہ دلاؤ نوٹس ہے۔ اصلاح معاشرہ کسی ادیب کا چناؤ تو ہوسکتا ہے، مگر یہ شرط نہیں ہے۔
اقبال: اورخان پامک اور نجیب محفوظ کو تو ادب کے نوبیل انعام سے نوازا گیا، لیکن اردو ادب کی بین الاقوامی دنیا میں پزیرائی نہیں ہوئی؟
بیگ صاحب: مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ادب کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوا۔ ترجمے کے بغیر آپ انٹرنیشنل مارکیٹ میں پہچان نہیں بناسکتے ہیں۔ ترک اور عرب ادیبوں کا کام ترجمے ہی کے ذریعے عالمی دنیا کے سامنے آیا۔ افسانے کے ترجمے کا تو امکان ہے، مگر ناول کا ترجمہ بڑا مسئلہ ہے۔ ایک برطانوی پبلشنگ ہاؤس کی ایڈیٹر نے میرے دوسرے ناول ”صفر سے ایک تک“ کے انگریزی ترجمے میں دل چسپی ظاہر کی تھی، مگر کوئی مترجم ہی نہیں ملا۔ 
اقبال: ہم نے ایک ناول کا ذکر سنا تھا، جو آپ نے ”غلام باغ“ کے بعد شروع کیا تھا؟
بیگ صاحب: جی ہاں، ”غلام باغ“ مکمل کرنے کے بعد ایک خلا پیدا ہوگیا تھا، سو فوراً نئے ناول پر کام شروع کردیا، اس کی چند اقساط ”سویرا“ میں بھی چھپیں، مگر پھر میں افسانے ترتیب دینے لگا، دوسرا ناول مکمل کیا۔ اُس کا مسودہ پڑا ہوا ہے، مگر چند مسائل ہیں۔ مجھے اس میں چند بڑی بڑی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔
اقبال: جو ادیب ناول کا تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، انھیں کیا مشورہ دینا چاہییں گے؟
بیگ صاحب: میں یہی کہوں گا زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔ کلاسیک پڑھیں، فرانسیسی ناول پڑھیں، لاطینی امریکی ناول پڑھیں۔ اگر آپ لکھتے ہیں، تو آپ کوجم کر پڑھنا ہوگا، بلکہ پاپولر ناول، تھرلر ناول بھی پڑھیں۔ میں ان اصناف کو بھی اتنا ہی قابل احترام مانتا ہوں، جتنا ادبی ناول کو۔ ہاں، ان میں بھی معیارات کا بہت فرق ملتا ہے۔
 قاری کے نام ایک نوٹ: یہ ایک انٹرویو نہیں ہے، ٹھیک ویسے ہی، جیسے ”غلام باغ“میں کبیر مہدی کے ہاتھ آنے والی کتاب، کتاب نہیں ہوتی۔






Post a Comment