ادریس آزاد

جب شبِ غم میں بکھر جاتا ہے شیرازہ ء دِل
آنکھ میں چپکے سے کھُل جاتا ہے دروازہ ء دِل
ظرف اُمّید کی کرنوں سے چھلک جاتا ہے
راستہ لوٹ کے آتے ہی بھٹک جاتا ہے
گوشہء دِل سے ترا خواب اُمڈ پڑتا ہے
ایک سویا ہوا سیلاب اُمڈ پڑتا ہے
دیکھتا ہوں میں تجھے ٹوٹا ہوا ، پھوٹا ہوا
بال بکھرے ہوئے، سرمایہ ء تن لوٹا ہوا
تیرے چہرے پہ فسوں کاریء ایّامِ عدم
تیری آنکھوں میں بسی وحشتِ صحرائے ستم
تیری پوشاک کہ اوراقِ مقدس کا غلاف
جیسے درویش کے تن پر کوئی بوسیدہ لحاف
جس کی آہوں سے مہکتے ہیں خزاؤں میں گلاب
جس کے مضراب سے بج اُٹھتے ہیں جھرنوں میں رباب
جس کی سسکی سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
طلبِ دشتِ جگر لذّتِ بارانِ وجود
جس کی جنبش ہے اترتے ہوئے سورج کا غروب
جو یہ کہتی ہے ذرا دیر کو رُک آج نہ ڈوب
نیند چُپ چاپ نگاہوں سے نکل جاتی ہے
پھر سےاِک ہارےہوئے خواب میں ڈھل جاتی ہے
میں ترے پاس کھڑا ہوں کسی ویرانے میں
ترے احوال پہ قربان سا، بے جان سا میں
حدتِ فکر میں جھلسی ہوئی پوشاکِ سخن
اور گردن میں ترا طوقِ جنوں پہنے ہوئے
دیکھتا ہوں میں تجھے وقت کے آئینے میں
تو کھڑی ہے مری محبوب بہت دور کہیں
اِس قدر دور کہ جوں شامِ اماوس کا شفق
اِس قدر دور کہ جوں شام کا دشتِ لق و دق
خواب میں خواب ہے اور خواب میں پھر خواب ہے اِک
وقت کی گود میں بہتا ہوا سیلاب ہے اِک
آنکھ کھلتی ہے تو اِک منظر ِ گرداب ہے پھر
اصل دُنیا ہے کہ چلتا ہوا اِک خواب ہے پھر؟
لگنے لگتا ہے کہ دِل نور کا دروازہ ہے
اور شبِ وصل کی لذت سے تروتازہ ہے

Post a Comment