ارشد شاھین
سوئے افلاک اٹھا کر جو پلک دیکھتے ہیں
کتنی حیرت سے ہمیں حور و مَلَک دیکھتے ہیں
وسعتِ چشم عطا کی ہے وہ مالک نے ہمیں
ہم بہت دور ، بہت دور تلک دیکھتے ہیں
حسن ہے حسن تو پھر ایک نظارہ کافی
دیکھنے والے فقط ایک جھلک دیکھتے ہیں
صحبتِ عہدِ گزشتہ ہمیں یاد آتی ہے
چاند تاروں سے مزیّن جو فلک دیکھتے ہیں
رنگ کیا ہے پسِ مژگاں ، ہمیں معلوم تو ہو
اپنی آنکھوں سےکسی روز چھلک دیکھتے ہیں

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں