نوشی گیلانی
عِشق دربار سجاتا ہے تو ہم  ناچتے  ہیں
پھر سرِ دار بُلاتا ہے تو ہم  ناچتے  ہیں
 ایک لہجہ کسی بھیگی ہویٔ خوشبو کی طرح
صبح کے ساتھ جگاتا ہے تو ہم ناچتے ہیں
 آخرِ شام  کویٔ عشق  کا  پاگل  لمحہ
جب ہمیں پاس بُلاتا ہے تو ہم ناچتے ہیں
 دُور تک پھیلی ہویٔ برف کا شفاف  بدن
دِل میں اِک آگ لگاتا ہے تو ہم ناچتے ہیں
 شب کی پازیب سے اُلجھا ہوا تنہا گُھنگرو
وصل کے گیت سُناتا ہے تو ہم ناچتے ہیں
 گرمیٔ لمس کی شدت سے دہکتا آنچل
ایک دیوار اُٹھاتا ہے تو ہم ناچتے ہیں

Post a Comment