ایک جعلی پیر کے شر نے معصوم بچی کے پاؤں جھلسا دیے۔ میڈیا تک یہ خبر پہنچی تو میڈیا چیخ اُٹھا۔ جس نے خبر پڑھی، اسی نے جعلی پیر کی زبانی کلامی مذمت کر کے اپنا فرض ادا کر دیا۔ یہ کسی نے نہیں سوچا کہ جعلی پیر کون ہوتا ہے؟ وہی، جو پیر نہیں ہوتا مگر پیر بن کر انسانوں کو ڈس لیتا ہے۔اصلی پیر کون ہے؟ اس کا جواب ہر شخص کے پاس موجود ہے۔ وہ جس کو مان رہا ہے، اسی کو اصلی پیر قرار دے رہاہے۔
اتفاق سے بہ حیثیت مسلمان ہم نے آج تک ایسا کوئی پیمانہ ہی مقرر نہیں کیا جس پر کسی بھی شخص کو پرکھ کر پیر یا غیر پیر ہونے کی سند جاری کر سکیں۔ 
پیمانے تو ہم نے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کے مقرر نہیں کیے۔ مسلمانی کیا ہے، کفر کیا ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں مگر کون کافر ہے اور کون مسلمان، یہ ادراک دن بہ دن ہماری گنتی کم کرتا جاتا ہے۔ 


دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والے انسان کے بلڈ، یورن ٹیسٹ، ایم آر آئی، ایکسرے، سی ٹی سکین یا سونالوجی رپورٹ سے اس کے مذہب کی تصدیق نہیں کی جا سکتی مگرہم میں سے ہر ان پڑھ آدمی فی الفور کافر اور غیر کافر کا تصدیقی فتویٰ جاری کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ محض خود کو غیر کافر سمجھتا ہے اور اپنے آپ سے مختلف ہر شخص کو کافر کہنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتا۔
یہ بے بسی نہیں، بے حسی ہے۔جہاں بے غیرتی کی حدیں تمام ہوتی ہیں، وہاں سے ایک راستہ بے حسی کی طرف نکلتا ہے۔ 
جی ہاں! غیرت کا تقاضا یہ تھا کہ ہم قرآن اور اپنے رسول پاکؐ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے علم حاصل کرتے اور تحقیق کے میدان میں شاہسوار ثابت ہوتے۔ تخلیقات اور ایجادات کی فہرست میں ہم سرِ فہرست ہوتے مگر ہم میں سے کسی کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ہو سکا اور آج ہم خریداروں کی لسٹ میں اپنے ناموں کی رینکنگ دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے یہ چیز بھی خرید لی ہے۔ ہم نے وہ چیز بھی خرید کر اپنے گھر رکھ چھوڑی ہے۔ 
ہم میں غیرت ہوتی تو آج جب ہم دنیا کے آدھے سے زیادہ معدنی تیل کے مالک ہیں، ہم کسی ایک ملک پر پابندی عائد کرنے کے اہل ہوتے مگر ہمارے کنوؤں سے تیل نکالنے والی کمپنیاں ہی ان ممالک کی ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسلام پر انگشت زنی کی ہے۔ ہم ان پر دباؤ ڈالنے کے بجائے بلیک میل ہوتے ہیں اور یہی ہماری بے حسی ہے۔ ان اسلام دشمن ممالک کی کمپنیاں عملی طور پر ہم پر حکومت کرتی ہیں۔ یہ کبھی خسارے کا سودا نہیں کرتیں اور جہاں ان کے مفادات پر آنچ آئے، یہ حکومتیں تبدیل کرنے کی پوزیشن میں جا کھڑی ہوتی ہیں۔
دنیا میں ڈیڑھ ارب کے قریب ہم مسلمان آباد ہیں۔ ہم تخلیق کار نہیں، موجد نہیں، صانع نہیں بلکہ ہمارا دنیا میں محض یہی کردار ہے کہ اعلیٰ دماغ لوگوں، پڑھے لکھوں اور شاطروں کی بنائی ہوئی اشیا کو ان کے طے کردہ نرخوں پرخریدتے رہیں اور بلیک میل ہوتے رہیں۔
ہم چائے، ٹوتھ پیسٹ، ڈٹرجنٹ، گھی، صابن، خوشبو، مشروبات، فاسٹ فوڈ، کاسمیٹکس، شیمپو، پیمپرز، پنسل اور سیاہی الغرض کچھ بھی تیار نہیں کرتے بلکہ چند کمپنیوں سے خریدتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ کیا کولڈ ڈرنک کی ایک بوتل لسی، دودھ یا شکنجبیں کا نعم البدل ہو سکتی ہے؟ کیا ٹیٹرا پیکڈ دودھ گائے یا بھینس کے تازہ دودھ کی جگہ لے سکتا ہے؟ مگر دیکھ لیجئے۔ہم صبح ہوتے ہی اپنا قیمتی دودھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ آدھی سے بھی کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں پھر شام کو تین گنا زیادہ قیمت پر چکنائی سے پاک باسی دودھ کا ڈبہ خرید کر پینے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم ہی وہ بے حس لوگ ہیں جو اپنی کماد کی فصل کو سڑکوں پر خوار ہوتے دیکھتے ہیں، شوگر ملوں کے آگے کئی کئی دن کھڑے رہتے ہیں اور سو دوسو روپے من گنا بیچتے ہیں اور انہیں دو ہزار وپے من چینی مل جائے تو خوشی سے باچھیں چیرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کیوں یقین نہیں آتا کہ ہم گروی رکھے ہوئے لوگ ہیں۔ ہمارا جوش دکھاوا ہے۔ ہماری اکڑ سب مانگے کی ہے۔ 
ہم اپنی ذات کے مفرور بے حس لوگ ہیں۔ ہم دوسری قوموں پرتہذیب اور ثقافت کی چوری تک کا الزام عائد کر سکتے ہیں۔ اس بات پر اترا سکتے ہیں کہ ہمارے مذہب کی خوبیاں یورپ اور امریکہ نے چرائی ہیں اور اس بات پر غم و غصہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ انڈیا اپنے طاقت ور میڈیا کے ذریعے ہم پر اپنی ثقافت کا رنگ چڑھا رہا ہے۔ یورپ اپنی این جی اوز کے ذریعے انگریزی کی راہ پر چلا کرہمیں اخلاق باختہ کر رہاہے۔ امریکہ ہمیں لادین کررہا ہے۔ جب انسان حقائق کی پٹڑی سے اتر جاتا ہے تو پھر ایسے ہی بے راہ رو جواز تراشتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان قوموں کے پاس ہمیں سدھارنے یا بگاڑنے کا وقت نہیں ہے۔ کیا ہم بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سی ہماری ثقافتی خوبی تھی جو کسی اور قوم نے ہتھیا کر اپنا لی؟ نہیں، یہ ہمارا سوچنے کا کام نہیں ہے۔ 
ہماری ثقافت یہ ہے کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں اورچوری کرکے اتراتے ہیں۔ ہم ذہنی طور پر اتنے غلیظ ہیں کہ بس چلے تو نوزائیدہ بچی کو بھی معاف نہ کریں۔ ہم دودھ میں گندگی ملاتے ہیں اور گٹر کی گندگی سے صابن تیار کرتے ہیں تاکہ پاکیزہ لباس لے کر مسجد میں جا سکیں۔کھانے والی چیزیں فٹ پاتھ پر اور جوتے ائیر کنڈیشنڈ دکان میں رکھ کر بیچتے ہیں۔ خوراک اور ادویات میں گریبان کھول کر ملاوٹ کرتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی ہماری پہچان ہے اور بلیک میلنگ ہمارا ہتھیار۔ اپنے بھائیوں کو مذہب کے نام پر قتل کرنا ہمیں جنت میں لے جانے کا راستہ ہے۔ ہم بیچنے کی غرض سے ادارے قائم کرتے ہیں اور خریدنے کیلئے ان اداروں کو برباد کر تے ہیں۔ دھڑلے سے بچلی چراتے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کا رونا روتے ہیں۔ جن لوگوں کو حکمران بناتے ہیں، انہی کا رونا روتے ہیں اور پھر انہی کی قبروں پر جا کر پرستش کے پھول چڑھاتے ہیں۔ ہم کسی بھی پیمانے اور حق پرستی کے کسی کو اصلی اور کسی کو جعلی پیر قرار دے کر حقِ مسلمانی ادا کرتے ہیں۔ ہم نے آج تک کوئی جن دیکھا ہے نہ جن کا بچہ۔ بھوت نکلتا دیکھا ہے، نہ مرتا مگر جن نکالنے والوں پر ہم آنکھیں بند کرے یقین کرتے ہیں۔ 
آخر ایسا کیا ہے کہ ہمارے گھر تو لوڈشیڈنگ کے سبب اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے چہروں پر نور برسنے لگتا ہے؟۔۔۔آخر بطور قوم ہم میں خوبی ہے بھی کیا جسے دوسری قومیں چوری کرسکتی ہوں؟

Post a Comment