سفرِ بے مثال ایک ایسے سفر کی ڈائری ہے جس کے لفظ لفظ پر آنسوں کے نشان اور اورجس کی سطر سطر سے عقیدت جھلکتی ہے،ہر مسلمان کی طرح  سفرنگار منور جاوید کی مدنیہ اور مکہ کی سرزمین  میں جا بجا سجدوں کی تڑپ نظر آتی ہے،
اے کاش برس جائے نور کی بارش
ایمان کے شیشوں پہ بڑی گرد جمی ہے
اس کے گھر حاضری کی بے تابیاں مصنفہ  کے اس سفر نامے کے ورق ورق پر بکھری ہوئی ہیں
خطائیں دیکھتا بھی ہے عطائیں کم نہیں کرتا
سمجھ میں آ نہیں سکتا وہ اتنا مہرباں کیوں ہے
رب بزرگ و برتر نے کائنات کی تشکیل کی کہ وہ پہچانا جائے۔ سیارے اور ستارے۔چاند سورج پیدا کئے ان کو ایک خاص سمت میں حرکت دی۔ ان کی اسی حرکت سے موسموں نے جنم لیا، دن رات پیداہوئے۔ کائنات میں تغیرات اسی حرکت یا سفر کی بدولت ہیں۔
سفر کا سب سے قیمتی عنصر اس کی حرکت ہے اور زندگی چونکہ خود ایک مسلسل حرکت ہے اس لئے سفر بھی زندگی کا استعارہ ہے۔
زندگی ایک  ایسا سفر ہے جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔
قرآن کی تمثیلی مگر حقیقی کہانیاں سب سے ارفع کہانیاں ہیں ان کہانیوں کا مرکزہ بھی سفر ہی ہے۔
انسان کا پہلا سفر احکام ربی کی خلاف ورزی کی بنا پر وقوع پزیر ہوا جب۔ سیرو فی الارض۔ کا حکم خداوندی نافذ ہوا تو تجربات حیات نے سفر کو وسیلہ ظفر قرار دیا۔
جیسا کہ میں نے کہا قرآن کی تمثیلی مگر حقیقی کہانیاں سفر پر مبنی ہیں، اسی سلسلے میں قرآن حکیم کی ان کہانیوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو سفر اور حیاتیات میں ایک تعلق نظر آتا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کا سفر کھلے پانیوں کا سفر تھا جب سیل عظیم نے بنی نوع انسان پر پانی کی وسیع تر چادر ڈال دی تو سفر نوح نے ہی سلسلہ حیات کا تسلسل برقرار رکھا۔حضرت موسی کو دنیا میں آتے ہی سفر درپیش آگیا۔ ان کی والدہ نے انہیں فرعون کے ظالمانہ عمل سے بچانے کے لئے لکڑی کے ایک تابوت میں بند کیا اوردریائے نیل کے سیل رواں پر رکھ دیا اور یہ سفر فرعون کے محلات میں اختتام پذیر ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے کنعان سے مصر تک کا سفر اپنے سوتیلے بھائیوں کی ستم رانی کی بنا پر کرنا پڑا۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خشکی کا سفر اختیار کیا، اللہ کا گھر تعمیر کیا اور آج بھی اور ابد تک یہ مقدس مقام اپنی عبدیت کے اعتراف کے لئے سفر کا مرکز ہے۔
یہ تمام سفراپنی جگہ، لیکن مسلمانان عالم کے لئے سب سے زیادہ اہمیت ان سفروں کی ہے جورسول خدا  نے اللہ کے حکم سے کئے ان کا پہلا سفر تجارتی مقاصد کے لئے تھا، مکہ سے مدینہ کا سفر سیاسی نوعیت کا تھا، مدینہ سے پھر مکہ کا سفر ایک فاتح کا سفر تھا۔
واقعہ معراج کے روحانی سفر میں اللہ نے اپنے بندے کو تمام خلائی حدود پار کراتے ہوئے اپنے دیدار کے لئے بلایا اور حضور نے ایسے مقامات معلی کی سیاحت کی جہاں پہنچتے ہوئے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔
دنیاوی معاملات میں شعور انسانی کی بدولت ۰۰۷۲ قبل مسیح میں جب پہیہ ایجاد  ہوا تو سفر میں آسانی کا ساماں ہوا اور زمینی فاصلے محدود ہو گئے۔
ڈاکٹر تارا چند نے تمدن ہند پر اسلامی اثرات۔ میں لکھا ہے کہ چھٹی صدی قبل مسیح تاریخ عالم کے حیرت ناک ادوار میں شمار ہوتی ہے۔ اس صدی میں ایک ملک سے دوسرے ملک میں خیالات کی ترسیل کا سلسلہ براہ راست جاری تھا اور چین سے لے کر مصر،روم اور یونان تک اثرات پہنچتے تھے۔ ان خیالات کا مرکز تمدن کا گہوارہ بغداد تھا۔
سفرنامہ، سفر کے تاثرات، حالات اور کوائف پر مشتمل ہوتا ہے۔ فنی اعتبار سے سفرنامہ وہ بیانیہ  تحریر ہے جس میں سیاح اپنے سفر کے دوران یا سفر کے اختتام پر اپنے مشاہدے، دوران سفراپنی کیفیات کے احوال قلم بند کرتا ہے۔ سیاح کی آنکھ جتنی باریک بیں ہوگی سفرنامہ اتنا ہی جذئیات سے بھرپور اور معلوماتی ہوگا۔داستان اور مکالمہ کے استعمال کی آمیزش سے لکھا جانے والا سفر نامہ قاری کی توجہ خود میں سموئے رکھتا ہے۔ منور جاوید کا،،سفرِ بے مثال،،سادگی ِ بیان کا مرقع ہے جسے انہوں نے تاریخ وار ڈائری کی مانند لکھا ہے۔اس طرح سفرنامہ لکھنے کا قاری کو ایک فائیدہ یہ ہوا ہے کہ چالیس روزہ حج کے  ایک ایک دن کی تفصیل نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔مصنفہ کا کہنا بھی یہی ہے کہ اس سفرنامے کو تحریر کرنے کا ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس سے سفرِ مقدس کا ارادہ کرنے والوں کو راہنمائی مل سکے گی۔ابتدا میں مصنفہ نے  روایات بیان کی ہیں جن کے بارے میں تحفظات ہو سکتے ہیں مثال کے طور  پر مصنفہ  نے لکھا ہے،،میرے خالقِ کائنات کو جب کائنات کی تخلیق کا خیال آیا تو فرشتوں کو زمین سے مٹی لانے کا حکم دیا،زمین نے متعدد بار فرشتوں کو مٹی دینے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے عزرائیل یعنی ملک الموت کو مٹی لانے کے لیئے بھیجا،وہ سفید،سرخ اور سیاہ رنگ کی مٹی لے کر ربِ کریم کے سامنے حاضر ہوئے،چونکہ مٹی تین رنگوں کی تھی اس لٗے انسان گروہوں میں پیدا ہویئے اور اب بھی مختلف رنگوں میں بٹے ہوئے   ہیں،سفر نامہ یا کوئی بھی تحریر لکھتے ہویئے احتیاط سے کام لیا جانا چاہیئیے،روایات کے نام
 سے لکھی ہوئی یہ تحریر یہ ثابت کرتی ہے کہ شیطان کی طرح زمین بھی اپنے خالق کی نافرمان تھی،پھر اللہ نے انسان کوگروہوں اور قبیلوں میں پیدا کیا تاکہ ان کی شناخت ہو سکے،اس وجہ سے نہیں کہ بقول مصنفہ لائی جانے والی مٹی تیں رنگوں کی تھی اس لیئے انسان گروہوں میں پیدا ہویئے۔
سفرِ بے مثال، ان تحفظات سے قطع نظر،حرمین شریفین کے سفرکے لئے ایک بہترین رہنمائی فراہم کرتا ہے،زیارات کے حوالے سے مختلف مقامات کا تفصیلی جائزہ پیش کیاگیا ہے،جو پہلی بار حرمین کی زیارت کے لیئے سفر کرنے والوں کے لیئے مشعلِ راہ ہے۔
تصاویر والے صفحات جو128صفحات کے بعددئیے گئے ہیں ان میں صفحہ 7 پر ایک تصویر کے نیچے لکھا ہے  مسجد قبلتین،اس حد تو درست ہے لیکن بریکٹ میں لکھا ہے پہلا قبلہ جو درست نہیں ہے،ہماری درخواست ہے کہ ایسی غلطیاں قاری کو کنفیوز کرتی ہیں، انہیں درست کر لیا جائے ، پہلا قبلہ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی،یا وہاں لکھ دیا جاتا کہ اس مسجد میں پہلا قبلہ تبدیل ہوا۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر،سفرِ بے مثال، ربِ بزرگ وبرتر کی رحمتیں سمیٹنے والا واقعی سفرِ بے مثال ہے
تیری رحمتوں پہ منحسر،میرے ہر عمل کی قبولیت
نہ مجھے سلیقہِ التجا، نہ مجھے شعورِ نماز ہے
اللہ سے یہ دعا ہے کہ اس سفرِ بے مثال کو مصنفہ کے لٗے توشہِ آخرت بنا دے۔

Post a Comment