قفس میں اہتمام بال و پر اس نے نہیں رکھا 
کسی امکان کو پیش نظر اس نے نہیں رکھا 
جسے کہتے ہیں منزل وہ تو اک زخم مسافت ھے 
مجھے اس دشت میں گرم سفر اس نے نہیں رکھا
تو پھر کیوں میری دھڑکن کے شرارے بجھتے جاتے ہیں 
اگر یہ پاؤں میری سانس پر اس نے نہیں رکھا
میں سمجھوں گا رم سیارگاں بھی اتفاقی ھے 
بھرم میری دعاؤں کا اگر اس نے نہیں رکھا
میں بنتا جا رہا ہوں آئنوں پر رتجگے حامد 
مری پوروں میں خوابوں کا ہنر اس نے نہیں رکھا

Post a Comment