جو ہوا یار وہ ہونا تو نہیں چاہیے تھا
خوب کہتے ہو کہ رونا تو نہیں چاہیے تھا
اے خدا ایک خدا لگتی کہے دیتے ہیں
تو ہے جیسا تجھے ہونا تو نہیں چاہیے تھا
کیوں دھڑکتی ہوئی مخلوق سسکتی ہی رہے
بے نیازی کو کھلونا تو نہیں چاہیے تھا
سلک _ ہستی سے اگر روٹھ گیا در _ جمال
سنگ _ دشنام پرونا تو نہیں چاہیے تھا
تو تو بچھتی ہی چلی جاتی ہے اے سادہ نگار
ڈھانپ خود کو کہ بچھونا تو نہیں چاہیے تھا
خود کشی بنتی ہے لیکن ہمیں بزدل ہیں کہ زیست
بار _ بے کار ہے ڈھونا تو نہیں چاہیے تھا
تو تو سچ مچ میں غزل کی کوئی انگڑائی تھی
تجھے آغوش میں ہونا تو نہیں چاہیے تھا
حیف ہے سلسلہ ء جبر میں شامل ہوں میں
تخم _ ہستی مجھے بونا تو نہیں چاہیے تھا
کم نگاہی میں سماتی ہی نہیں قامت _ خوش
اے زمانے تجھے بونا تو نہیں چاہیے تھا
عشق کا داغ کہاں چھوڑ کے جاتا ہے تراب

Post a Comment