معروف نقاد سکندر احمد کا انتقال ہوگیا۔ نئی نسل میں بہترین صلاحیتوں کی یوں بھی کافی کمی ہے۔ ایک اور خداداد صلاحیت کم ہوگئی۔ سکندر احمدنے فکشن کی تنقید کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا تھا۔ ان کے طویل مضمون ’’افسانے کے قواعد‘‘ کی اشاعت کے فوراً بعد شمس الرحمن فاروقی کا کہنا تھا کہ ’’گذشتہ ۳۰ برسوں میں فکشن پر اس طرح کے نظری مباحث قائم نہیں ہوئے۔‘‘ قرۃ العین حیدر پر بھی ان کے ایک مضمون ’’قرۃ العینیت‘‘ کی اہمیت کا اندازہ معروف افسانہ نگار نیر مسعود کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’اگر یہ مضمون قرۃ العین حیدر کی زندگی میں لکھا جاتا تو انھیں (عینی آپا کو) پھر نقادوں سے کوئی شکایت نہ رہتی۔‘‘ اس کے علاوہ سکندر احمد نے فن عروض اور زبان و بیان پر بھی کافی کچھ لکھا جو ’’شب خون‘‘، ’’جامعہ‘‘، ’’الانصار‘‘، ’’اردو ادب‘‘ ، ’’اثبات‘‘ اور ’’ذہن جدید‘‘ وغیرہ کے علاوہ پاکستان کے متعدد علمی و ادبی جرائد میں تواتر سے شائع ہوتے رہے ہیں۔

Post a Comment