آثار جنوں
شاعر: شیخ عطاء اللہ جنوں
تدوین: محمد افتخار شفیع
ناشر : شعبہء اُردو گورنمنٹ کالج ساہیوال
صفحات: 142
قیمت: 120 روپے
زیرِ نظر کتاب ایک شعری مجموعہ نہیں بلکہ ایک گُم گشتہ شاعر کی دریافت ہے۔ شیخ عطااللہ نے 1961 میں وفات پائی۔ اگرچہ اُن کی پیدائش مشرقی پنجاب کی تھی لیکن تمام عمر ساہیوال میں بسر ہوئی۔ اُن کے والد شیخ اسد اللہ محسود فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے اور خود عطااللہ کا بنیادی رجحان بھی فارسی کی طرف تھا۔ اُن کا جو کلام دستیاب ہو سکا ہے اس میں ایک بڑا حصّہ فارسی غزل اور رباعی پر مبنی ہے۔ یہ فارسی کلام پہلی بار 1965 کے منٹگمری گزٹ میں منظرِعام پر آیا جو کہ مصطفٰے زیدی کی انتظامی نگرانی میں شائع ہوا تھا۔ اُس موقع پر یہ بات انتہائی افسوس کے ساتھ رقم کی گئی تھی کہ شیخ عطا اللہ کا اُردو کلام میسر نہیں ہے۔ اگرچہ شیخ صاحب کے شاگردوں میں بہت سے سرکاری افسر اور دیگر صاحبِ حیثیت لوگ شامل تھے لیکن انھوں نے کلام کو یک جا کرنے یا کتابی شکل میں شائع کرانے کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہ دی۔
کلام کی اشاعت کا یہ اعزاز اب نصف صدی بعد اُن کے مقامی مداحوں کو حاصل ہوا ہے جن کے سر خلیل محمد افتخار شفیع گورنمنٹ کالج ساہیوال کے شعبہ اُردو میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ اُنھی کی شبانہ روز جہد و کاوش سے یہ بکھرے ہوئے موتی ایک لڑی میں پروے گئے اور آج کا قاری شیخ عطا اللہ کے نام اور کلام سے شناسا ہو سکا۔
شاعر کا کلام کلاسیکی روایت میں ڈوبا ہوا ہے اور مضامین بھی اگرچہ وہی ہیں جنھوں نے صدیوں تک فارسی اور اُردو غزل کے گلستانوں کی آبیاری کی ہے، لیکن ادائیگی اور آھنگ مُنفرد ہے۔ نمونے کے اِن اشعار میں ملاحظہ کیجئے کہ حمدیہ مضمون میں بھی کیسی شوخی اور طنز کا مظاہرہ کیا ہے:
خود وقار اپنا نہ کھو ہم بے وقاروں سے نہ کھیل
قادرِ مطلق ہے تو بے اختیاروں سے نہ کھیل
اے امیدِ حسرت افزاء اے سرابِ دشت یاس
جا مرے آنسو نہ پونچھ اِن آبشاروں سے نہ کھیل
کچھ نشیمن اس سے آگے بھی ہیں اے برقِ نگاہ
آسمانوں تک نہ رہ جا، چاند تاروں سے نہ کھیل
برق طلعت نازنینوں کی نہ زلفوں سے الجھ
او دلِ مرگ آرزو بجلی کے تاروں سے نہ کھیل
کلام سے پہلے شاعر کی شخصیت اور شاعری کا ایک جامع تعارف موجود ہے جسے کلام کے مُرتب محمد افتخار شفیع نے اِن الفاظ پہ ختم کیا:
ٰ ٰ شیخ عطا اللہ جنوں کی شاعری کا فکری و فنی تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ ایک پختہ کار شاعر تھے، الفاظ کے دروبست اور استعمال کے ہنر پر ان کو بہت سے دیگر شعرا پر فوقیت حاصل تھی۔ ان کے کلام میں کلاسیکی رچاو کے ساتھ ساتھ جدید موضوعات بھی قدرے فلسفیانہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ شاعری میں اپنے خیالات اور نمایاں رجحان کی مدد سے انھوں نے افسانہء حسن و عشق کی فلسفیانہ توجیہ کی ہے۔ غزل اور رباعی کے ایک اہم شاعر کے طور پر مولانا جنوں کی ادبی حیثیت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی برِصغیر میں اردو فارسی کی روایت ان کے بغیر مکمل ہو سکتی ہے۔ ٰ ٰ
کتاب میں شیخ عطاء اللہ جنوں کی ایک نایاب تصویر اور خود اُن کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر کا عکس بھی موجود ہے جس سے اس مجموعہء کلام کی اہمیت سہ چند ہوگئی ہے۔

Post a Comment