سمندر کا سفر ہے رتجگا ہے
دِیا اک پانیوں پر جل رہا ہے
افق پر دُور اک نیلا ستارہ
مرے ھمراہ شب بھر جاگتا ہے
اڑانوں سے تھکا ہارا پرندہ
سنہرے پانیوں پہ آ گِرا ہے
مرے دِل کی ہتھیلی پر کسی کا
کوئی پیغام لکھا رہ گیا ہے
عجب ہے ہجر موسم کی کہانی
بدن کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے
ہوا نے آج کیسی بات کہہ دی
گلوں کا حوصلہ بکھرا ہوا ہے
مہکتی ہےمرے دِل کی حویلی
کوئی دیوار و در میں بولتا ہے
نوشی گیلانی
ادبستان کی بہت ممنون ھوں کہ اپنے دامن میں جگہ دی۔۔ نوشی گیلابی
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں